21 Jul 2016

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین دلیل نمبر 4

نصب الرایہ ص 404 میں بحوالہ خلافیات بیہقی یہ حدیث نقل کی گئی ہے
عن عبداللہ بن عون الخراز ثنا مالک عن الزھری عن سالم عن ابن عمر ان النبی ﷺ کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ ثم لا یعود۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رفع الیدین اس وقت کرتے جب شروع کرتے پھر رفع الیدین کرنے کے لئے نہ لوٹتے تھے۔
قارئین کرام یہ حدیث بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور پہلی تین حدیثوں کی طرح ترک رفع الیدین میں واضح ہے اور سند کے لحاظ سے تواصح الاسانید ہے جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کے حوالہ سے گزر چکا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی امام مالک ہیں لیکن مدونہ کبری میں امام مالک کے شاگرد ابن وہب اور ابن القاسم تھے جو نہایت ہی ثقہ تھے وار یہاں شاگر عبداللہ بن عون الخراز ہیں جو زبردست ثقہ ہیں اور ان کی توثیق پر سب حضرات محدثین متفق ہیں دیکھئے تقریب 210 طبع دہی و تہذیب التہذیب ص229 ج5 ص250 اور اس حدیث کی سند اور متن کے الفاظ اس سے پہلی حدیث کے ساتھ ملتے جلتے ہیں البتہ اس حدیث میں ثم لا یعود کا جملہ زیادہ ہے جو اس  حصر کی تاکید ہے جو جزا کے مقدم کرنے کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ اگ یہ جملہ نہ بھی ہوتا پہلی حدیث کی طرح تب بھی رفع الیدین عند الافتتاح پر ہی بند تھا۔
اعتراض: امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے فرمایا کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ہم نے امام مالک سے رفع الیدین کی روایت بیان کی ہے اور حافظ ابن حجرؒ تلخیص الجبر میں فرماتے ہیں مقلوب موضوع
الجواب: امام حاکم کی یہ سخت غلطی ہے اور اس کے کئی جواب ہیں ۔ جواب نمبر1۔ جب اس حدیث کی سند صحیح ہے تو پھر موضوع کیسے؟ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔
الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء
اسناد حدیث دین میں سے ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کے خیال میں جو بات آجاتی وہی کہہ دیتا۔
مقدمہ مسلم ص12، و سنن ترمذی ص236، ج2
اور جب سند ہو گی تو کسی کو غلط بات کرنے کی جراءت نہ ہو گی جیسے کہ امام حاکم ؒ نے غلطی کی ہے جواب نمبر2۔ امام حاکم کثیر الغلط ہیں مستدرک میں انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔
بعض دفعہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ دیتے ہیں۔ علامہ ذہبی ؒ نے اس لئے تلخیص المستدرک لکھ کر ان اغلاط کو ظاہر کیا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
بعض دفعہ علامہ ذہبی اغلاط بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور غصہ میں آکر امام حاکم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ تجھے اے مؤلف حیاء  نہیں اآتی ایسی غلط باتیں کرتے ہو۔ چنانچہ قاضی شوکانی ؒ، غیر مقلد الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص496 میں ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
قال الحاکم ہذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی افمااستحی الحاکم من اللہ یصحح مثل ہذا وقال فی تلخیص المستدرک ہذا موضوع قبح اللہ من وضعہ وما کنت احسب ان الجھل بالحاکم یبلغ الیٰ ان یصحح مثل ہذا وھو  مما افتراہ یزید بن یزید البلوی آھ بلفظہٖ
امام حکم ؒ نے ایک حدیث کے بارے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے علامہ ذہبی نے فرمایا کیا حاکم کو اللہ تعالیٰ سے حیاء نہیں آتی ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرتا ہے اور علامہ ذہبی ؒ نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے کہ ی حدیث موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ وضع کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے مجھے یہ گمان نہ تھا کہ حاکم ایسی جہالت تک پہنچ جائیگا کہ ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرے گا حالانکہ یہ حدیث یزید بن یزید بلوی کا افتراء ہے۔
اور علامہ زیلعی ؒ نصب الرایہ ص351،، ج1 میں لکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ؒ نے کہا
اما استحی الحاکم یورد فی کتابہ مثل ہذا الحدیث الموضوع فانا اشہد باللہ واللہ انہ لکذب آھ
کیا حاکم کو حیا ء نہیں آتی  کہ ایسی موضوع حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے میں (ذہبیؒ) خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر گواہی  دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے۔
اور علامہ ذہبی ؒ تلخیص مستدرک مع المستدرک ص60  ، ج3 میں امام حاکم کو اسی قسم کے الفاظ استعمال کر کے سخت سست کہا ہے اگر امام حاکم ایسی موضوع حدیثوں کو صحیح کہنے میں غلطی کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے کہ صحیح حدیث کو موضوع کہنے کی غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟
لطیفہ: میناء ایک راوی ہے جو کہ محدیث کے ہاں رافضی اور کذاب ہے امام حاکم فرماتے ہیں۔
قد ادرک النبی ﷺ وسمع منہ واللہ اعلم ۔ مستدرک حاکم ص160، ج3
منیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پالیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے سنا بھی ہے۔ واللہ اعلم
علامہ ذہبی فرماتے ہیں
قلت ما قال ہذا بشر سوی الحاکم  وانما ذاتا بعی ساقط وقال ابو حاتم کذاب یکذب وقال ابن معین لیس بثقۃ (الیٰ) اھما استحیت ایھا المؤلف ان تورد ہذاہ الا خلوقات من اقوال الطرقیۃ فیما یستدرک علی الشیخین۔  تلخیص المستدرک ص160، ج3
میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں کہ یہ بات سوا حاکم کے اور کسی بشر نے نہیں  کی حالانکہ یہ (منیاء) تابعی ہے جو ساقط العدالت ہے اور ابو حاتم ؒ نے کہا ہے کہ کذاب ہے  جھوٹ بولتا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے (الیٰ) کیا اے مؤلف تجھے حیاء نہیں آتی کہ ایسی جھوٹی باتوں کو ایسی سندوں سے مستدرک علی الشیخین میں لاتے ہو
اور حافظ ابن حجرؒ تقریب ص 259 طبع دہلی میں لکھتے ہیں
مینا  متروک و رمی بالرفض و کذبہ ابو حاتم من الثالثۃ ووھم الحاکم فجعل لہ صحبۃ ۔ واللہ اعلم
مینا متروک الحدیث ہے اور رفض کی تمہت سے متہم ہے اور ابو حاتمؒ نے اسے کذب قرار دیا ہے اور امام حاکم ایسے وہم میں پڑے کہ اس کی صحابیت ثابت کر ڈالی ۔ واللہ اعلم
قارئین کرام اگر امام حاکم ترک رفع الیدین کی صحیح حدیث کو موضوع کہتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہے۔
جواب نمبر3: امام حاکم ؒ کا اس حدیث کو اس بناء پر موضوع کہہ دینا کہ انہوں نے امام مالک سے رفع الیدین روایت کیا ہے صحیح نہیں  کیونکہ اگر مالکیہ حضرات  یہی طریقہ اختیار کر کے امام حاکم ؒ کی رفع لیدین عن مالک روایت کو موضوع کہہ دیں اسی بناء پر کہ انہوں نے (جیسے ابن وہب مالکی اور ابن القاسم مالکی نے مدونہ کبری میں اور عبداللہ بن عون اخراز نے خلافیات بیہقی میں) امام مالک سے ترک رفع الیدین کی روایت کی ہے تو امام حاکم اس کا کیا جواب دیں گے۔ ان الظن لا  یغنی من الحق شیاََ
جواب نمبر4: امام مالک سےئ ترک رفع الیدین کی ایک روایت تو یہی ہے جو زیر بحث ہے دوسری اس سے پہلے مدونہ کبریٰ کے حوالہ سے گزر چک ہے۔ تیسری موطا امام محمد کے حوالہ سے آرہی  ہے کیا ان سب کو موضوع سمجھا جائے گا ۔ بہتر  تو یہ ہے کہ ن سب کو موضوع کہنے سے اس روایت کو ہی موضوع قرار دیا جائے ۔ جو امام حاکم نے امم مالک سے رفع الیدین کے متعلق بیان کی ہے۔
جواب نمبر5: امام مالک  کا مذہب ترک رفع الیدین ہے جیسا کہ باب اول میں اس کا ٹھوس حوالوں سے ثبوت پیش کیا گیا ہے امام حاکم ہی بتائیں کہ انہوں نے کس حدیث کی بناء پر ترک رفع الیدین کا مذہب اختیار کیا ہے ۔ کیا امام مالکؒ احادیث  نبویہ کے زیادہ ماہر تھے یا (امام حاکمؒ)  آپ زیادہ ماہر ہیں۔ اس لئے علامہ سید محمد انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
ہذا حکم من الحاکم لا یکفی ولا یشفی ۔ نیل الفرقدین ص127
حاکم کا یہ حکم ناکافی اور غیر تسلی بخش ہے
باقی رہا حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو مقلوب "موضوع" کہنا تو یہ بھی کئی وجوہ سے غلط  ہے اولاََ تو اس لئے کہ سند جب صحیح ہے تو پھر یہ موضوع کیسے  و ثانیاََ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کی روایت ہی ثابت نہیں جیسے دلیل نمبر1 کے تحت گزرا تو پھر اس ترک رفع لیدین کی روایت کو مقلوب کہنا کیسے صحیح ہوا۔و ثالثاََ امام مالک سے ترک رفع  لیدین کی صرف یہی روایت نہیں بلکہ اور روایات بھی ہیں و رابعاََ مستخرج صحیح ابوعوانہ اور مسند حمیدی کے حوالہ سے ترک رفع الیدین کی روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے گزر چکی ہیں جو سا روایت کی تصحیح کا مزید ثبوت  فراہم کرتی ہیں و خامساََ امام شافعی کی مدح میں  تو حافظ ابن حجر موضوع حدیث بیان کر نے سے دریغ نہیں کرتے اور پھر سکوت کر جاتے ہیں۔ بحوالہ مقدمہ نصب الرایہ ص60۔ پتہ نہیں اس حدیث کو وہ موضوع کیوں کہتے ہیں شاید کہ ان کے امام کے مذہب کے خلاف ہے؟ اور حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر ص181 و درایہ ص 85 میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بین کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ آخری عمر تک رفع الیدین کرتے رہے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ذکر کر کے اس پر مہر سکوت لگائی ہے۔ (بحوالہ رفع یدین و آمین) حالانکہ یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ اپنے مقام پر اس کی بحث آرہی ہے شاید کہ یہی ہو کہ جو حدیث موضوع ان کے امام کی مدح میں ہو اور ان کے مذہب کی تائید کرتی ہو تو وہاں بیان کرنیکے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو اس پر کوئی نہ کوئی جرح کر ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی لغزشوں کو معاف فرما دے آمین۔ حافظ ابن حجرؒ کی یہ پانچویں غلطی ثابت ہوئی کیونکہ چار پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہیں۔
(لطیفہ) حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب ص198 ج2 میں لکھتے کہ حجاج بن ارطاۃ کی ایک روایت بطور متعابعت کے صحیح بخاری کتاب العتق میں موجود ہے حالانکہ صحیح بخاری ص343۔ ج1 میں وہ  متابع بن حجاج اسلمی باھلی ہے  اور بقول علامہ ذہبی کے امام بخاری نے صحیح بخاری میں کہیں بھی اس کی روایت متابعۃ ذکر نہیں کی البتہ امام مسلم نے متبعۃ پیش کی ہے چنانچہ الفاظ اس طرح ہیں۔ لم یخرج لہ البخاری وقرنہ مسلم بالآخر تذکرۃ الحفاظ ص175، ج1
شیخ محمد عابد سندھی محدث مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاََ و کرامۃ کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وہ مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت تضعیف الحدیث لا یثبت بمجرد الحکم وانما یثبت ببیان وجوہ العن فیہ وحدیث ابن عمر الذی رواہ البیہقی  فی خلافیاتہ  رجالہ رجال الصحیح فما اری لہ ضعفاََ بعد ذالک اللھم الا ان یکون الراوی عن مالک مطعونا لٰکن الاصل العدم فحذا الحدیث عندی صحیح لا محالۃ آھ ۔ بحوالہ معارف السنن ص498، ج2
میں (عابد سندھی) کہتا ہوں کہ حدیث کا ضعف ہوتا محض کسی کے حکم لگانے سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسباب جرح کے بیان کرنے سے ہوتا ہے اور یہ حدث  (ترک رفع یدین) کی جو امام بیہقی نے خلافیات میں حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے اس کے رجال صحیح (بخاری و مسلم) کے ہیں پس اس حدیث کا ضعف  مجھے نظر نہیں آتا مگر یہ کہ امام مالک سے راوی مجروح ہو لیکن یسا بھی نہیں پس یہ حدیث میرے نزدیک بالیقین صحیح ہے۔
شیخ محمد عابد سندھی کا تعارف:
علامہ احمد محمد شاکرؒ غیر مقلد مقدمہ شرح ترمذی   ص13 میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں ۔ العالم العظیم الشیخ محمد عابد السندی محدث المدینہ المنورۃ فی القرن الماضی ۔ اور مقدمہ شرح ترمذی ص14 میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ حافظ سید عبدالحی کتانی ؒ نے اپنی کتاب فہرس الفہارس مطبوعہ فاس 1346ھ میں ان کی تعریف  ان الفاظ سے کی ہے۔ شیخ شیوخنا محدث الحجاز ومسندہ عالم الحنفیۃ بہ الشیخ محمد عابد بن احمد بن علی السندی الانصاری المدنی الحنفی المتوفی بالمدینۃ المنورہ 1285ھ الغرض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا چاروں احادیث  اصح الاسانید ہیں۔
نوٹ: اس حدیث پر اعتراضات اور ان کے جوابات کے لئے دیکھئے مندرجہ ذیل پوسٹ:

ترک رفع یدین کے سلسلہ میں ابن عمر رضى الله تعالى عنه کی حدیث (دلیل نمبر 4) کی تصحیح اور البانی کی تردید

1 comment:

  1. السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

    رفع الید ین کے متعلق ابو حنیفہ رحمہ اللہ کاکیا فتوی ہے؟ برائے مہربانی باحوالہ ذکر کر دیں۔

    والسلام

    ReplyDelete