8 Jan 2014

حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ  بْنُ بُکَیْرٍ  قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفْرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّرضی اللہ عنہما اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا‘‘(صحیح بخاری؛ ج۱ ص۱۱۴‘  صحیح ابن خزیمہ؛ ج۱ ص۲۹۸)
ترجمہ :محمدبن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کےصحابہ کرام  کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں: ’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کا ذکر کیا (کہ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کیسے نماز پڑھتے تھے؟) توحضرت ابو حمید الساعدی  رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’میں تم سےحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ  صلی  اللہ  علیہ  و سلم  کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایا اور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا پھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا تو سیدھے کھڑے ہو گئے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اور جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اور نہ ہی ملایا۔
اعتراض: صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں“
جواب:    ہمارا مؤقف یہ ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جائے،اس کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے۔حدیثِ مذکور جو سنداًصحیح ہے،میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا ذکر کرتے ہیں،باقی مقامات کا ذکر نہیں کرتے۔اس سے ہمارا مؤقف ثابت ہے۔
اعتراض: محمد قاسم نانوتوی(بانی مدرسہ دیوبند)نے لکھا: مذکورنہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں“
جواب: حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا قول اس استدلال کے خلاف نہیں،اس لیے کہ اصول ہے:
السکوت فی معرض البیان بیان(مرعاۃ المصابیح لعبیداللہ المبارکپوری ج3ص385،روح المعانی ج18ص7)
وہ مقام جہاں ایک شے کو بیان کرنا چاہیے،وہاں اس کے بیان کو چھوڑنے کا مطلب اس شے کا عدم بیان کرنا ہوتاہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نماز کے اس نقشہ کو بیان فرمارہے ہیں جو دیکھنے سے نظر آتا ہے کمافی الحدیث رایتہ (میں نے انھیں دیکھا)۔ اگررفع یدین عندالرکوع وبعد الرکوع ہوتا تو ضرور بیان کرتے۔معلوم ہو ا کہ یہ رفع یدین نہیں ہوتا تھا۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا قاعدہ مطلق ہے اور ہمارا بیان کردہ اصول ایک قید فی معرض البیانکے ساتھ مقید ہے۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ کسی کو یہ اصطلاح سمجھ میں نہ آئے تو اصول فقہ کی کتب کی طرف مراجعت فرما لیں اور خوب سمجھنے کی کوشش کریں۔
نوٹ:سنن ابی داؤد وغیرہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر موجود ہے۔عرض“ہے کہ اس میں ایک راوی عبدالحمید بن جعفر ہے جو کہ ضعیف، خطاکار اور قدری ہے۔

  • امام نسائی فرماتے ہیں: لیس بالقوی (ضعفاء صغیر ص 48)
  • امام ابوحاتم فرماتے ہیںلا یحتج بہ اور امام سفیان الثوریؒ بھی اس کی تضعیف کرتے تھے؛ وکان الثوری یضعفہ (میزان الاعتدال، ج 2 ص 94)
  • حافظ ابن حجر لکھتے ہیںوکان یحی بن سعید یضعفہ امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس سے روایت بھی لیتے تھے تو ابن معین نے فرمایا کہ حضرت یحیی القطانؒ اس سے روایت بھی لیتے تھے وکان یضعفہ وکان یری القدر اور ساتھ ہی اس کی تضعیف بھی کرتے تھے اور یہ تقدیر کا منکر تھا۔ (تہذیب التہذیب، ج 6 ص 112)
  • امام ابن حبانوقال ابن حبان ربما اخطاء ؛ اور ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس نے اکثر اوقات خطا کی ہے۔
  • امام ترمذیؒ نے بھی اس کی ایک روایت کو غیر اصح قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 140، سورۃ حجر)
  • امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ شرح المعانی الآثار ج 1 ص 111 میں فرماتے ہیں۔
"عبد الحمید ابن جعفر کو جب وہ خود ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس سے احتجاج نہیں کرتے تو پھر اس کی حدیث سے کس طرح حجت پکڑتے ہیں۔" اور شرح المعانی الآثار (ج 1 ص 127) میں خود امام طحاویؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
  • حافظ ابن قیم حنبلیؒ اس کی ایک حدیث کا جواب یوں دیتے ہیں۔
        "امام یحییٰ بن سعیدؒ اور امام ثوریؒ نے عبد الحمید بن جعفر کو ضعیف قرار دیا ہے۔"
  • قاضی شوکانی غیر مقلد عبد الحمید بن جعفر کی ایک روایت بارے یوں لکھتے ہیں:
"ابن المنذر نے فرمایا اس راوی کو محدثین کرامؒ مضبوط قرار نہیں دیتے اور اس سند میں کلام ہے۔"
نیز صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ابو حمید الساعدیؓ کی یہی مذکورہ بالا روایت ذکر کی ہے مگر رفع الیدین عند افتتاح الصلوٰۃ کے علاوہ کا اور کوئی ذکر نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ امیر یمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:
"حضرت ابوحمیدؓ کی حدیث جو بخاری کی روایت سے گزر چکی ہے اس میں رفع یدین تکبیر احرام کے سوا اور کہیں نہیں لیکن ابو داؤد کی یہ روایت اس کے خلاف ہے اور اس میں تین مقامات میں رفع الیدین کا ذکر ہے۔ " (سبل السلام، ج 1 ص 105)
معلوم ہوا کہ رفع الیدین کا بیان بخاریؒ میں اس لیے نہیں ہے کہ وہاں راوی عبدالحمید بن جعفر نہیں ہے اور چونکہ ابوداؤد میں عبدالحمید ہے اس لیے اس نے بطور خطاء رفع الیدین کا ذکر کر دیا ہے اگر رفع یدین کا ذکر صحیح ہوتا تو امام بخاریؒ اسے صحیح البخاری میں بیان کرنے سے ہرگز نہ چُوکتے کیونکہ انہوں نے جزء رفع الیدین میں ہر قسم کی رطب و یابس روایات کی بھرتی کی ہے۔
نیز یہ روایت منقطع بھی ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع حضرت ابوقتادہ سے نہیں اور سنداً متنًابھی یہ روایت مضطرب ہے۔(دیکھیے نورالصباح ج1ص203تا210)
آپ نے سند کا حال تو ملاحظہ کرلیا،  غیر مقلدین کے شیخ زبیر علی زئی کا فرمان“ بھی ملاحظہ کیجیے، موصوف فرماتے ہیں:”اور یہ سند صحیح ہے“ (ضرب حق:21 ص37)
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

9 comments:

  1. (سیدنا) ابو حمید الساعدی ؓنے دس صحابہ کرامؓ ، جن ،میں (سیدنا) ابوقتادہ ؓبھی تھے، کے مجمع میں فرمایا: میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کو جانتا ہوں، انہوں نے کہا : کیسے؟ اللہ کی قسم ! آپ نے نہ تو ہم سے زیادہ آپ ﷺ کی اتباع کی ہے اور نہ ہم سے پہلے آپ ﷺ کے صحابی بنے تھے۔ انہوں (سیدنا ابو حمیدؓ) نے کہا: جی ہاں ! صحابیوںؓ نے کہا: تو پیش کرو !، (سیدنا ابوحمید ؓ نے) کہا : رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی ۔پھرآپ ﷺ قرأت کرتے، پھر تکبیر(اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی ۔ پھر آپ (ﷺ) قرأت کرتے ، پھر تکبیر کہتے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھتے۔ پھر (پیٹھ سیدھی کرنے میں) اعتدال کرتے ، نہ تو سر زیادہ جھکاتے اور نہ اُٹھائے رکھتے (یعنی آپ ﷺ کا سر مبارک اور پیٹھ ایک سیدھ میں برابر ہوتے تھے) پھر سر اُُٹھاتے تو سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے، پھر کندھوں تک اعتدال سے رفع یدین کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے ۔ (سجدے میں) اپنے دونوں بازو اپنے پہلوؤں سےدُور رکھتے۔ پھر آپ ﷺسر اُٹھاتے اور بایاں پاؤں دُھرا کرکے (بچھا کر) اس پر بیٹھ جاتے ۔ آپ ﷺ سجدے میں اپنی انگلیاں کھلی رکھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ سجدہ کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے ، آپ ﷺ بایاں پاؤں دھرا کرکے اس پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی۔

    پھر دوسری رکعت میں (بھی ) اسی طرح کرتے۔ پھر جب آپﷺ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور کندھوں تک رفع یدین کرتے ، جیساکہ آپ ﷺ نے شروع نماز میں رفع یدین کیا تھا۔ پھر باقی نماز بھی اسی طرح پڑھتے حتی کہ جب آپﷺ کا (آخری) سجدہ ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے تو آپﷺ تو رک کرتےہوئے ، بایاں پاؤں(دائیں طرف) پیچھے کرتے ہوئے ، بائیں پہلو پر بیٹھ جاتے تھے۔(سارے) صحابہ کرامؓ نے کہا: "صدقت، ھکذا کان یصلي صلی اللہ علیہ وسلم"
    آپ نے سچ کہاہے ، آپ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)​

    اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے

    ReplyDelete
  2. مون لائٹ آفریدی بھائی جو ترجمہ حدیث آپ نے پیش کیا ہے یہاں بکہ ایک نہیں دو دو احادیث کے تراجم پیش کئے ہیں اگر ان کا حوالہ بھی دے دیتے تو کتنا اچھا ہوتا ہم بھی اصل عربی عبارت دیکھ کر آپکے عربی سے اردو ترجمہ کی کوئی تعریف ہی کر دیتے۔

    آپ نے بھی اپنے غیر مقلد ہونے کی دلیل دے دی اور اندھی تقلید کا طعنہ دوسروں کو دینے والے ایک بار پھر خود اندھی کانی بہری تقلید میں ملوث پائے گئے۔ جیسے کہ پوسٹ میں بھی زبیر علیزئی کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انہوں نے سند متن پر اتنی جروح کے باوجود کمال ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا جل دیا ہے کہ لکھ دیا سند صحیح ہے۔ واہ رے اہلحدیثیت کہ آپ نے بھی اوپر پوسٹ میں جروح کو پڑھنے اور پرکھنے کی بجائے وہی اندھی تقلید کی کہ آپ نے بھی وہی لکھ دیا جس غلطی کی پہلے تنبیہ بھی کی جا چکی ہے۔

    ابھی تو ہم نے صرف صحیح بخاری اور ابوداؤد کی روایت پر ہلکی سی بحث کی ہے، ابھی تو اس کے مختلف طرق کر کر کے ہم نے سند اور متن کے اضطراب کو کھولا ہی نہیں۔ بلکہ اضطراب تو اضطراب ، تمام طرق جمع کر کے سند کے انقطاع کی بات بھی نہیں کی۔ اس کے علاوہ بھی بڑی تفصیل پڑی ہے لیکن عقل مند را اشارہ کافی است کے اصول کے تحت صرف بنیادی بات ہی ذکر کی گئی ہے۔ اب جو عقل رکھتا ہو گا اشارہ کافی ہو گا وگرنہ تو کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں مگر سمجھنے وال کہیں نہیں ملتے۔

    ReplyDelete
  3. ماتریدی صاحب۔
    غصہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔؟

    ReplyDelete
  4. ایک لنک پیسٹ کرتا ہوں کوئی اس میں لکھی جرح کا حوالہ بتائے گا کہ اس پیج پہ کہاں سے لکھی گئی ہے خصوصا امام بخاری اور سفیان بن عینیہ کا عبد الحمید بن جعفر کو ضعیف کہنا ?
    http://hadith.islam-db.com/narrators/4230/زياد

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ لنک کھل نہیں رہا۔۔۔ آپ دوبارہ کوئی لنک دیجئے۔
      اور بات کھل کر سمجھائیے کہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔

      والسلام

      Delete
  5. اور یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ موسوعة الحدیث کی سائیٹ کن کی بنائی ہوئی ہے احناف کی یا سلفیوں کی
    http://hadith.islam-db.com/narrators/4230/زياد

    ReplyDelete
  6. حق بات تو واضح ہے کہ جس روایت کو ترک رفع الیدین پر پیش کیا گیا ہے اس میں تو رفع الیدین کا ترک مذکور نہیں اور پھر اوپر سے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ مذکور نہ ہونہ بھی نہ کرنے کی دلیل تو اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر اس اس حدیث میں اور بھی بہت سی چیزوں کا ذکر نہیں اب کوئی شخص اس حدیث سے تشہد، سلام اور پوری نماز میں تسبیحات اور دعاؤں کا ترک ثابت کرنا چاہے تو یہ کتنی بڑی جہالت ہے حالانکہ دوسرے طرق سے ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. حق کی وضاحت یا کتمانِ حق؟
      محترم گمنان صاحب آپ کے اس تبصرے سے آپ کی اُس اصول سے لاعلمی ظاہر ہو رہی ہے جس کا ذکر اُوپر پوسٹ میں کیا گیا ہے۔
      اصول یہ ہے کہ جس جگہ کا جہاں ذکر لازمی ہو وہاں اس کا ذکر نہ کرنا اس کے عدم پر دلالت کرتا ہے۔
      اب اگر غور سے اسی پوسٹ کو پڑھا ہوتا اور اس کے بعد سمجھ بھی آیا ہوتا تو یہ کمنٹ آپ سے صادر نہ ہوا ہوتا۔
      وہی بات دوبارہ انہی الفاظ میں دُہراتا ہوں کہ پڑھ لیجئے شاید کمنٹ کی جلدی میں پہلے پڑھا نہ ہو یا سمجھا نہ ہو۔

      " حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نماز کے اس نقشہ کو بیان فرمارہے ہیں جو دیکھنے سے نظر آتا ہے کمافی الحدیث ”رایتہ“ (میں نے انھیں دیکھا)۔ "

      اب اس سے کیا سمجھ میں آیا؟ یہ ضرور بتلائیے گا۔ اور اگر اب بھی سمجھ نہ آئے تو پھر دوبارہ پوچھئے میں پھر بھی حاضر ہوں تابعدار ہوں۔
      عرض اتنی سی ہے کہ جس طرح کا مفہوم لیا جا رہا ہے اور جس دلیل سے کام لیا جا رہا ہے اس کو سمجھنے اور اسی کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیئے یہاں وہاں سے پڑھا سنا اٹھا کے کمنٹ کرنے سے مخالفین کو زیر کرنے کی سوچ کوئی بہتر حکمتِ عملی نہیں۔

      والسلام

      Delete