1 Nov 2014

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین دلیل نمبر 1

حدثنا عبداللہ بن ایب المخزومی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالو احدثنا سفیان بن عینیۃ  عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ   اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتیٰ یحاذی بھما وقال بعضہم حذو منکبیہ واذا  ارد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضہم ولا یرفع بین  السجدتین والمغی واحد آھ بلفظہٖ
دلیل نمبر1، مستخرج صحیح ابوعوانہ صفحہ 90/2ج، طبع حیدر اآباد دکن میں ہے
محدث ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومیؒ اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو ؒ تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم نے سفیان بن عیینہ ؒ نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم ؒ سے اور اور وہ اپنے باپ عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ رفع یدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے۔
مستخرج صحیح ابو عوانہ کا تعارف
اس کتاب کے مصنف محدث ابوعوانہ ؒ یعقوب بن اسحٰق اسفرائنی المتوفی 316ھ ہیں ان کی کتاب ہذا بھی عند لمحدثین صحیح مسلم کی طرح صحیح ہے علامہ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ ص6 ج3 میں اس کتاب کو الصحیح المسند کہتے ہیں اور ص3ج3 میں لکھتے ہیں کہ ابوعوانہ ؒ الحافظ الثقۃ الکبیر میں اور علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکربی س321 ج2 تا س322 میں ان کے فضائل و مناقت بیان کئے ہیں اور کنزالعمال س3 ج1 میں ہے کہ تمام حدیثیں صحیح ہیں اور امام سیوطیؒ تدریب الراوی میں صحیح ابوعوانہ کو صحیح کتابوں میں شمار کرتے ہیں ۔اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری غیر مقلد تحقیق الکلام ص118 ج2 میں لکھتے ہیں کہ اور حافظ ابوعوانہ کی سند کا بھی صحیح ہونا ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے صحیح میں صحت کا التزام کی ہے ۔ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد اپنی کتاب رفع یدین اور آمین کے ص22 میں لکھتے ہیں برخلاف ان کتابوں کے جن میں صحت کی شرط ہے ان اکیلی اکیلی کو صحیح کہتے ہین جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان ، صحیح
ابوعوانہ، صحیح ابوالسکن وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح صحیح ابن خزیمہ ہے چنانچہ علامہ زیلعیؒ کی عبارت بھی ابھی گزری پس ان بزرگوں کا اپنی کتابوں میں کسی حدیث کو لانا اور سکوت کرنا یہی صحیح کہنا ہے ورنہ صحت کی شرط کا فائدہ کیا۔
اور روپڑی صاحب اسی رسالہ کے ص123 میں لکھتے ہیں اور جن مصنفین نے اپنی کتب میں صحت کی شرط کی ہے ان کی کتابوں میں کسی حدیث کا ہونا صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابن خزیمہ اور ایسے ہی کسی حدیث کا ان کتابوں میں ہونا جو بخاری مسلم پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابی عوانہ الاسفرائنی اور کتاب ابی بکر اسماعیلی اور کتاب ابی بکر برقانی وغیرہ یہ محدثین بخاری مسلم کی احادیث کو اپنی اسانید سے روایت کرتے ہیں جن میں بخاری مسلم کا واسطہ نہیں ہوتا اور ان کا مقصد بخاری مسلم کی احادیث میں کمی بیشی کو بیان کرنا ہے مثلاََ مسلم میں کوئی مخذوف ہے اس کو پورا کر دیا کوئی زیادتی بخاری مسلم سے رہ گئی جس سے مطلب حدیث کی وضاحت ہوتی ہو اس کا ذکر کر دیا الخ بلفظٖہ
قاریئن کرام صحیح ابو عوانہ کی جب تمام حدیثیں محدثین کے ہاں صحیح ہیں تو یہ ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہونے کے ساتھ صریح بھی ہے۔
جناب روپڑی صاحب کی عبارت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں (1) صحیح ابو عوانہ ان کتابوں میں شمار ہے جن کی تمام حدیثیں صحیح ہیں (2) صحیح ابوعوانہ کی سند وہی بخاری مسلم والی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مسلم کا درمیان میں واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں (3) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جن میں الفاظ کی کمی بیشی ہے اور بعض الفاظ (مخذوفات) ان میں مذکور نہیں ہیں جس کی وجہ سے مطلب حدیث وضاحت نہیں ہوتی (4) اور مخرجین حضرات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کمی بیشی ور محذوف کو ذکر کر دیا جائے تا کہ مطلب حدیث واضح ہو جائے۔ قارئین کام آپ حضرات نے جب یہ بتیں ذہن نشین کر لیں تو اب ہم آپ سے اس روایت میں جو حضرت ابوعمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین میں پیش کی جاتی ہے عرض کرتے ہیں کہ بخاری وغیرہ میں جزاء یرفعہما ہے اور ابوعوانہ وغیرہ میں لا یرفعھما اور ابو داؤد ج1 ص104 میں روایت یوں ہے
راءیت رسول اللہ ﷺ اذا استفتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راء سہ من الرکوع (الیٰ) ولا یرفع بین السجدتین یہاں اذا شرطیہ دو 2 ہیں پہلا اذا استفتح لصلاۃ اور اس کی جزاء رفع یدیہ مذکور ہے اور دوسرے واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راءسہ من الرکوع ہے اور اس کی جزاء مذکور نہیں ہے بعض حضرات نے اس حدیث کو رفع الیدین کے با ب میں ان الفاظ کے ساتھ لا کر یوں رفع یدین ثابت کی (جیسے امام بودائود ؒ نے دوسرے اذا کا بذریعہ واؤ عطف ہے پہلے اذا پر اور س کی جازا رفع یدیہ ہے تو اس کی جزاء بھی رفع یدیہ سمجھی ہے بعض حضرات نے بذریعہ عطف یہ جزاء سمجھ کر اپنی طر ف سے جزاء کے الفاظ بھی ذکر کر دیئے ۔ چنانچہ بعض حضرات نے جزاء رفع یدیہہ ذکر کر دی اور بعض حضرات نے واذا ارادان یرکع فعل مثل ذالک ذکر کر دیا اور بعض حضرات نے اذا اراہ ان یرکع کذالک رفعھما ذکر کر دی حالانکہ جزاء اس طرح ہے جس طرح کہ صحیح ابوعوانہ میں ہے ۔ واذا ارادان یر کع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفعھما
اس جزاء مخذوف کے ذکر کرنے سے مطلب حدیث کی پوری وضاحت ہو گئی کہ یہ حدیث ترک رفع الیدین میں واضح ہے اسے رفع یدین میں حتمی طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے ور امام ابوعوانہ کی طرح امام بخاری کے استاد امام حمیدی نے بھی اپنے مسند حمیدی میں جزاء مخذوف کا ذکر کیا ہے جیسے کہ دلیل نمبر2 کے تحت اس کا ذکر آرہا ہے۔ اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کا زیادتی اور مخذوف کے بارے میں ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ کریں۔ وہ اپنی کتاب رفع الیدین اور آمین کے ص 129 میں لکھتے ہیں اس طرح وہ روایتیں بھی صحیح ہیں جو مستخرجات علی الصحیحین میں پائی جاتی ہیں جیسے کوئی زیادتی یا تتمہ کسی مخذوف کا آ ھ بلفظٖہ
نیز اس حدیث (ترک رفع الیدین ) کی تمام سندوں سے زیادہ صحیح ہے چنانچہ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد رفع لیدین اور آمین کے ص 64 میں لکھتے ہیں دوم زہری سالم ابن عمر اصح السانید ہے یعنی سب سندوں سے زیادہ صحیح ہے ملاحظہ ہو شرح نخبہ اور رسالہ امیر علی حنفی التہذیب للتقریب ملحقہ تقریب التہذیب ص الخ بلفظٖہ 
روپڑی صاحب کے فرمان کے مطابق جب یہ سب باتیں صحیح ہیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حتمی طور پر رفع یدین کی روایت کا بالکل خاتمہ ہو گیا اور روپڑی صاحب کا یہ کہنا جو انہوں نے رفع یدین اور آمین کے ص 65 میں لکھا ہے کہ محدثین نے قطع نظر اس سے کہ کسی فقاہت کی کمی بیشی میں بحث کریں اور رفع یدین کے متلعق روایات کی اتنی بھرمار کر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث قریب قریب تواتر تک پہنچا دی۔
حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ص175 ج2 میں لکھا ہے کہ پچاس 50صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے (جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں) آہ بلفظٖہ غلط ہے۔ 
اولاََ تو اس لئے کہ حضرت ابن عمر سے جب یرفعھما کی روایت ہی نہیں بلکہ لا یرفعھما کی بھی سند سے مروی ہے اور ان کا معمول بھی بعض اوقات ترک رفع یدین تھا تو مولانا روپڑی صاحب کا حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت کو متواتر کہنا اور ان کی دوسری روایت لا یرفعھما کا ذکر تک نہ کرنا انصاف سے بعید ہے چونکہ مولانا روپڑی نے پہلے ہی تعصب کا شکار ہو کر یہ ٹھان لی ہے کہ رفع یدین ہی ثابت ہے نہ کہ ترک رفع یدین تو اس لئے ان سے پے در پے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں بقول شخصے
خشت اول نہد معمار کج تا ثریا مرود دیوار کج
وثانیاََ روپڑی صاحب کا پچاس صحابہ رضوان اللہ علیہم سے رفع الیدین ثابت کرنا دھوکہ ہے اور مقدمہ میں غیر مقلدین حضرات کا ایک اور دھوکہ کے عنوان کے تحت علامہ شوکانی ؒ وار علامہ امیر یمانی ؒ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابتاء نماز کے وقت رفع الیدین جو متفق علیہ ہے اس سے پچاس صحابہ راوی ہیں اور عند الرکوع وغیرہ رفع الیدین کے نہ تو پچاس صحابہ راوی ہیں نہ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہ۔ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کو ہم ان کی ہی عبارت یاد دلاتے ہیں وہ رفع یدین اور آمین کے ص117 میں لکھتے ہیں اپنے مذہب کی پاسبانی کوئی بری چیز نہیں مگر تعصب کرنا اور دیانت داری کے خلاف قدم اٹھانا یہ مذہبی پاسبانی نہیں بلکہ خواہش نفسانی کی پاسبانی ہے آھ بلفظٖہ مگر روپڑی صاحب تمہیں عادت ہے بھول جانے کی ۔ دیراں را نصیحت خود را فضیحت
حافظ عبداللہ صاحب روپڑی سے ہم عرض کرتے ہیں۔
آثار سحر کے پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا ظلمت کے بھیانک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا

No comments:

Post a Comment