11 Sept 2013

تفسیرِ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
’’قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ‘‘(سورۃمومنون: 1، 2)
ترجمہ:’’پکی بات ہےکہ وہ ایمان لانےوالےکامیاب ہوگئےجونمازمیں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘
تفسیر:’’قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ: مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّلَایَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ  فِی الصَّلٰوۃِ… ‘‘ (تفسیرابن عباس:ص212)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’خشوع کرنےوالےسےمراد وہ لوگ ہیں جو نماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘

حضرت عبد ا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ان آیات   کی تفسیر میں لَایَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ  فِی الصَّلٰوۃِ[نہ ہی نمازمیں رفع یدین کرتے ہیں]کے واضح الفاظ موجود ہیں۔
”لَایَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ  فِی الصَّلٰوۃِ“ کے الفاظ سے نمازکے اندر پائے جانے والےہر رفع یدین کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ رکوع سے پہلے کا ہو،رکوع کے بعد کا ہو،سجدوں کے وقت کا ہویا تیسری رکعت کے شروع کا، الگ سے ہر ایک کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے لَاالہ الا اللہ میں  لَاسےہر معبودِ باطل کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ لات ہو یا عزی یا کوئی اور،ہر ایک کا ذکر ضروری نہیں۔
اعتراض: اس [تفسیر ابن عباس] کا مرکزی راوی محمد بن مروان السدی الصغیر کذاب ہے اور باقی سند بھی سلسلۃ الکذب ہے“
نیز شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے حوالے سے لکھا:" اس سلسلۂ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب" قرار دیاہے۔
جواب:  بطور تمہید چند باتیں عرض ہیں۔
1:ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک فن میں ماہر ،ثقہ اور معتبر ہو اوربعینہ وہی آدمی دوسرے فن میں ضعیف ،متروک بلکہ کذاب تک ہو۔یعنی ایک فن کا ماہر ضروری نہیں کہ دوسرے فن میں بھی ماہر ہو۔کتب اسماء الرجال کا جائزہ لینے سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔جیسے:-
۱:امام بخاری : آپ کی تالیف التاریخ الکبیر“ کو فنِ تاریخ میں وہ درجہ حاصل نہیں جو صحیح بخاری کو فنِ حدیث میں ہے،حالانکہ دونوں آپ کی تالیف ہیں۔
۲:محمد بن اسحاق بن یسار: فنِ حدیث میں ائمہ نے ان کوکذاب،لیس بالقوی،لایحتج بہ وغیرہ فرمایا(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص41وغیرہ) اور اسی محمد بن اسحاق بن یسار کو علم مغازی کاامام“ اور مرجع“ کہا گیاہے۔(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج1ص130وغیرہ)
۳:عاصم بن ابی النجود الکوفی: حافظ ابن حجر ان کے بارے میں فرماتے ہیں:لہ اوہام“،لیکن فن قراءۃ میں حجت قرار دیا(تقریب التہذیب ص471)
۴:حفص بن سلیمان الاسدی:امام ذہبی نے ائمہ کی جروح نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ فنِ قراءۃ میں ثقہ،ثبت وضابط ہے، بخلاف فنِ حدیث کے،اس میں ایسا نہیں(معرفۃ القراء الکبار ج1ص140)اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: متروک الحدیث ہے ،لیکن فنِ قراءۃ کا امام ہے۔(تقریب لابن حجر ص257)
۵:عیسی بن میناء المدنی: امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ فنِ قراءۃ میں معتبر تھے، لیکن فنِ حدیث میں ناقابل اعتبار ہے(میزان الاعتدال ج3ص327)
۶:مقاتل بن سلیمان:حافظ خلیلی فرماتے ہیں کہ یہ علماءِ تفسیر کے ہاں عظیم الشان مقام ومرتبہ کے مالک ہیں، لیکن حفاظ حدیث نے انہیں روایت میں ضعیف قرار دیاہے۔(الارشاد للخلیلی ج3ص928 بحوالہ ارشیف ملتقی التفسیر)۔
2:جید محدثین مثلاً امام بیہقی،امام ذہبی،حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام الجرح والتعدیل امام یحیٰ بن سعید القطان کے حوالے سے یہ اصول نقل کیاہے:
تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم وجُوَيْبِرِ  بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم ،
(دلائل النبوۃ للبیہقی ج1ص33،میزان الاعتدال  للذہبی ج1ص391 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد ، تہذیب التہذیب لابن حجر ج1ص594رقم1164فی ترجمۃ جويبر بن سعيد )
ترجمہ:ائمہ نے فنِ تفسیر میں ایسے لوگوں (کی مرویات کے بارے میں )نرمی اختیار کی ہے جن کو حدیث میں معتبر قرار نہیں دیتے۔پھر(یحییٰ بن سعید القطان)نے لیث بن ابی سلیم،جویبر بن سعید اور محمد بن السائب الکلبی کا نام لیا اور فرمایا کہ ان( جیسے) حضرات کی نقل کردہ حدیث تو قابلِ مدح نہیں البتہ ان کی تفسیر لکھی جائے گی۔
3:وہ ائمہ جو فن تفسیر میں مشہور ہیں یا تو روایۃً مشہور ہیں یا دِرایۃً،اگر محدثین ان پر روایت کے اعتبار سے کلام کریں تو لازمی نہیں کہ ان کی دِرایت بھی غیرمعتبر ہو بلکہ جہتِ دِرایت پر غور کیا جائے گا۔محدثین کے کلام کرنے سے ان کی جہتِ دِرایت متاثر نہ ہوگی۔(ارشیف ملتقی اہل التفسیر عدد1ص1588 تا 1595 ملخصاً)
4:روایت کو تو کذب سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن دِرایت کو کذب نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے خطاء یا صواب سے تعبیر کیا جائے گا (ایضاً)
اس تمہید کے بعد جواب عرض ہے کہ
نمبر1:محمد بن مروان السدی الصغیر پر جرح فنِ حدیث کے اعتبار سے ہے۔امام بخاری فرماتے ہیں:
لایکتب حدیثہ البتۃ(میزان الاعتدال ج4ص263 رقم الترجمہ:7679) کہ اس کی احادیث ہر گز نہ لکھی جائیں۔
اور فن تفسیر میں اسے صاحب التفسیر“ اور المفسر“ کہاگیا ہے۔(مغانی الاخیار ج5ص429،شذرات الذہب ج1ص318)
دوسرے رواۃ(الکلبی اور ابوصالح ) کو ائمہ نے مفسر کے طور پر ذکر کیاہے(الکامل لابن عدی ج6ص2132،میزان الاعتدال ج3ص556،معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص242) بلکہ کلبی سے تفسیر لینے کو امام یحییٰ القطان نے جائز قرار دیا(دلائل النبوۃ ج1ص33وغیرہ) اور ابوصالح کو ثقہ قرار دیا گیاہے۔(معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص292)
امام ذھبی علیہ رحمہ نے میزان الاعتدال میں ابن عدی علیہ رحمہ سے نقل کیا ہے،
" قال ابن عدی  وحدث عن الکلبی سفیان و شعبۃ وجماعۃ ورضوہ فی التفسیر واما فی الحدیثہ عند المناکیر "
ترجمہ " محمد بن السائب کلبی سے امام سفیان، امام شعبہ اور ایک اور جماعت نے ان سے حدیث نقل کی ہے، تفسیر میں ان سے وہ خوش ہوتے ہیں ، البتہ احادیث بعض اس کے پاس وہ ہیں جو منکر ہیں" میزان الاعتدال للذھبی جلد 3، ص 533

لہذا فقرہ نمبر1 اور 2کی رو سے ان کی تفسیر حجت ہے۔
نمبر3:اس سلسلۂ سند پر روایتی نقطۂ نظر سے کلام ہے لیکن ازروئے فقرہ نمبر3 یہ درایتی نقطۂ نظر کو چنداں مضر نہیں۔
درایۃً اس آیت سے ترک رفع یدین ثابت ہوتا ہے۔وہ اس طرح کہ اس آیت میں کامیاب مومنین کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن میں ایک وصف ”ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ“ ہےکہ وہ نماز میں خشوع (تواضع و عاجزی اور سکون)اختیار کرتے ہیں۔ خشوع کا حاصل یہ ہے کہ حرکات محضہ سے اجتناب کیا جائے (جیسا کہ مفسرین نے”خشوع“ کا معنی کرتے ہوئے لکھا:”تظهر آثارها على الجوارح فتجعلها ساكنة مستشعرة أنها واقفة بين يدي اللّه“[التفسیر الوسیط: ج10، ص12]خشوع و خضوع کے آ ثار اعضاء پر ظاہر ہوتے ہیں اور اسے سکون والا بنا دیتے ہیں۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے]اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارےمیں روایت نقل کی کہ یہ حضرات  نماز میں ایسے کھڑے ہوتے تھے گویا کہ لکڑی زمین میں نصب ہے [السنن الکبریٰ :ج2ص358] ان جیسی روایات کا حاصل یہ ہے کہ خشوع کا تقاضا اس وقت پورا ہو گا جب حرکاتِ محضہ سے اجتناب کر کے سکون کیا جائے)نیز  ارشاد باری تعالیٰ ہے: أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي[طہٰ:14]
ترجمہ: میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔
رکوع کو جاتے ،رکوع سے اٹھتے اورتیسری رکعت کےشروع میں جو رفع یدین کیا جاتاہے وہ چونکہ  ذکر سے خالی ہوتا ہے اس لیے حرکت ِمحضہ ہے اور خشوع  و سکون کے خلاف ہے۔تو  آیت میں لفظ”خَاشِعُوْنَ“ بھی اس رفع یدین کےترک کا تقاضا کرتا ہے۔پس درایۃً  منع ثابت ہوا۔و اللہ اعلم بالصواب
تنبیہ1:اس تفسیر کی تائید مشہور ثقہ تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ م110ھ سے مروی تفسیر سے بھی ہوتی ہے۔ آپ رحمہ اللہالَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
خاشعون الذین لایرفعون ایدیہم فی الصلوۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ،(تفسیر السمرقندی ج2ص408طبع بیروت)
ترجمہ: ”خَاشِعُوْنَ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف تکبیرِ اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں۔
تنبیہ2:حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں بھی نما ز میں رفع یدین سے منع اور سکون کرنے کا حکم ہے،جو مزید تائید ہے کہ مذکورہ رفع یدین مومنین کے  وصف خَاشِعُوْنَ کے خلاف ہے۔(اس حدیث پر غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات تفصیلا الگ پوسٹ میں آ رہے ہیں)۔
ضمنی اعتراض: جزء رفع یدین کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیدنا  ابن عباس رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔
جواب:جزء رفع یدین میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے:
عن ابی جمرۃ قال رایت ابن عباس رضی اللہ عنہما یرفع یدیہ حیث کبر و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ (جزء رفع یدین للبخاری:رقم:21)
ترجمہ: ابو جمرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رفع یدین کرتے ہیں جب تکبیر کہتے ہیں اور جب رکوع سے سر اٹھاتے ہیں۔
اس سے غیر مقلدین  کا ”مذہب“ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا، اس لیے کہ :
1: اس کی سند میں ابو جمرۃ (”ج “کے ساتھ) مجہول ہے اس لیے سند صحیح نہیں۔ (نسخہ دہلی، اسوہ ص۲۷) افسوس کہ غیر مقلدین نے تحریف کر کے اس کو ابو حمزہ بنا دیاہے۔ (جزء رفع یدین للبخاری مترجم ا ز حضرت اوکاڑوی: ص279)
2: غیرمقلدین کا موقف یہ ہے کہ رکوع کو جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین کیا جائے جو دس دفعہ کی رفع یدین بنتی ہے، لیکن اس اثرسے [بشرط صحت] تو یہ معلوم ہوتا ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما چار رکعت میں پانچ دفعہ تو رفع یدین کرتے تھے اور پانچ دفعہ نہیں کرتے تھے۔ گویا چار رکعت نماز میں پانچ سنتیں ترک فرماتے تھے۔ پھر یہ اثر غیرمقلدین کو سود مند کہاں؟؟؟
اس غیر صحیح اثرکے بر خلاف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سند صحیح سے مروی ہے:لاَ تُرْفَعُ الأَيْدِي إِلاَّ فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ؛حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلاَةَالحدیث(المعجم الکبیر: رقم الحدیث 11904)
’’سات جگہوں پر ہاتھوں کواٹھایاجاتاہے؛ایک جب نماز شروع کی جائے الخ ۔۔۔۔"
ان مقامات میں غیر مقلدین کے مزعومہ مقامات کا ذکر نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment