22 Jul 2016

حضرت عبد اللہؓ بن مسعود اور ترک رفع یدین دلیل نمبر 2

سنن نسائی ص ۱۵۸ طبع رحمییہ دیوبند میں ہے۔ باب ترک ذالک یعنی رفع الیدین چھوڑنے کا باب پھر اس کے تحت فرماتے ہیں۔

اخبر نا سوید بن نصر حد ثنا عبد اللّٰہ بن المبارک عن سفیان عن عاصر بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن ال اسود عن علقمۃ عن عبد اللّٰہ قال الا اخبرکم بصلوٰۃ رسول اللّٰہ ﷺ قال فقام فر فع ید یہ اول مرۃ ثم لم یعد۔

امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں سوؔید بن نصرؒ نے خبر دی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے عبد اللہ بن المبارکؒ نے حدیث بیان فرمائی وہ ثوریؒ سے اور وہ عاصم بن کلیب سے اور وہ عبدالرحمٰن بن اسودؒ سے اور وہ علقمہؒ سے اور وہ حضرت عبد اللہؓ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جناب رسول اللہ ﷺ کی نماز کی خبر نہ دوں تو حضرت عبداللہ ؓ نماز کےلیے کھڑے ہوگئے پس رفع یدین کیا اول دفعہ پھر اس کا اعادہ نہ کیا۔

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ امامؔ نسائیؒ جانی پہچانی شخصیت ہیں اور ان کے استاد سویدؔ بن نصرؒ کے متعلق محدثؔ عبد العظیم منذریؒ الترغیب والترہیب ص ۳۲۸ میں اور حافظؔ حجرؒ تقریب ص ۲۱۷ طبع دہلی میں فرماتے ہیں ثقتہ، حضرت عبداللہ بن المابارکؒ بالا تفاق ثقہ ہیں مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارک پوریؒ غیر مقلد تحفتہ الاحوذی ص ۱۲۸، ج۲ طبع دہلی میں ان کے متعلق یوں تحریر فرماتے ہیں۔ عبد اللّٰہ بن المبارک المروزی احد ال ئمۃ الا علام وشیخ ال سلام قال ابن عیینۃ ابن المبارک عالم المشرق والمغرب وما یینھما وقال شعبۃ ماقدم علینا مثلۃ ثقتۃ ‘’ شبت‘’ فقیہ‘’ عالؔم‘’ جوؔاد‘’’ جمعت فیہ خصال الخیر مات سنۃ۱۸۱ احدی وثمانین ومأ سۃ‘’ آھ بلفظہ باقؔی رواۃ کی توثیق اس حدیث کے بعد والی حدیت میں بیان ہوگی اور یہ حدیث صحیح ہے جو ترک رفع الیدین میں صریح ہے علاّمہ محمد ہاشم مدنیؒ اپنے رسالہ کشف الرین عن مُسلتہ رفع الیدین میں فرماتے ہیں ۔ ان اسنادانسائی علی شرط الشیخین بحوالہ ھامش طحاوی ص۱۱۰ ج۱ وہامش نودی ص ۱۶۸ اور آثار السنن نیموی ص۱۰۳ ج۱ اونیل الفرقدین ص۶۴ وفتح الملہم شرح المسلم ص۱۳ج۲ میں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اعتراض۔۱۔ نصب الرایہ ص ۴۱۷ ج۱ میں (نقلا عن حبز رفع الیدین للبخادی‘’)
ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے عبداللہ بن مبارک کو رفع الید ین کرتے دیکھا تو کہا کہ کیا اڑنے لگا تھا عبد اللہ بن مبارکؒ نے جواب دیا جب پہلی دفع (نیت باندھنے کے وقت) نہیں اڑا تو پھر کیا اڑبا تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن مبارکؒ کے نزدیک عبداللہ مسعود(والصحیح عبداللہ ؓ بن مسعود) کی کوئی حدیث بالکل صحیح نہیں۔ رفع ؔیدین اور آمیں ص۷۷ مولفہ جناب حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد۔
جواب:۔ روپڑی صاحب کی تسلی شاید کسی اور جواب سے نہ ہوسکے بہتر یہی ہے کہ ان کو اپنے ہی قلم کا لکھا ہوا جواب پیش کردیا جائے چنانچہ حاؔفظ عبداللہ صاحب روپڑی رفع یدین اور آمیں کے ص۱۴۷ میں لکھتے ہیں حالانکہ معمولی فہم کا انسان بھی اس بات بخوبی سمجھتا ہے کہ بعض دفعہ انسان کا ایک مذہب ہوتا ہے اور حدیث بعد میں پہنچتی ہے۔ اس کے بعد اس کا مذہب وہی سمجھا جائے گا جو حدیث میں ہے خواہ نقل کر نے والے کچھ نقل کریں اھہ بلفظہٖ۔
قارئین ؔ کرام:-حضرت عبداللہ بن مبارکؒ اس حدیث ترک رفع الیدین کے راوی ہیں ان کا مذہب بھی ترک رفع الیدین ہے۔ بقولِ حافظ روپڑی اب اگر کوئی حضرت عبداللہ سے خلاف نقل کرے تو اس نقل کا کوئی اعتبار نہیں خواہ نقل کرنے والے کچھ ہی نقل کرتے رہیں گرچہ روپڑی صاحب ہی کیوں نہ ہوں۔ان کا مذہب حدیث والا سمجھا جائے گا جو انہوں نے روایت کی ہے۔
؎ ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
باقی امام بخاریؒ نے یہ مکالمہ بلا سند نقل کیا ہے جو کہ قابلِ اعتبار نہیں یہ تو جر رفع الیدین میں انہوں نے بلا سند نقل کیا ہے اگر صحیح بخاری میں بھی وہ بلا سند نقل کرتے تو پھر بھی کچھ قابلِ اعتبار نہ تھا چنانچہ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی رفع یدین اور آمیں کے ص۱۳۴ میں لکھتے ہیں اور کبھی تعلیقات کے متعلق ایسی صحت وضعف کی بحث ہوتی ہے اس لیے یہ مکالمہ کئی وجوہ سے محذوش ہے اوٰؔلا اس مکالمہ کے ذکر کرنے کے بعد روپڑی صاحب رفع الیدین اور آمیں کے ص ۱۱۳ میں لکھتے ہیں : امام وکیعؒ فرماتے ہیں خدا عبداللہ بن مبارک پر رحم کرے بڑے حاضر جواب تھے۔ آھہ۔ حالانکہ امام وکیعؒ ترک رفع الیدین پر عمل کرتے تھے(جز، رفع الیدین امام بخاری ؒ ص ۲۳ طبع لاہور) وہ کیسے ابن المبارک ؒ کو غلط بات کی داد دیتے اور پھر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں متضاد باتیں حبز، رفع الیدین میں موجود ہیں وثاؔنیا اس کی کوئی سند بیان نہیں کی گئی اور امام بخاریؒ نے جو صحیح بخاری میں تعلیقات ذکر کی ہیں بقول روپڑی صاحب ان کی صحت ضروری نہیں مثلاً صحیح بخاری ص ۴۴ ج۱ میں ہے (قال ابراہیم لابأس ان تقرء آل یۃ ) کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے کہا ہے کہ جنبی انسان پوری آیت قرآن مجید پڑھ سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں (محّصلہ) اور صحیح بخاری کے اسی صفحہ پر ہے (ولم یر ابن عباس بالقرءۃ للجنب بأساً) کہ حضرت ابن عباسؓ بھی جنبی انسان کے لیے تلاوتِ قرآن مجید کو جائز سمجھتے ہیں۔
امام بخاریؒ کا مذہب یہ ہے کہ جنبی انسان تلاوتِ قرآن مجید کر سکتا ہے کیکن امام بخاریؒ کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے حضرت ابراہیم نخعیؒ کی بات کو اپنی دلیل پیش کرتے ہیں(حیرت ہے کہ ترک رفع الید ین بھی حضرت ابراہیم نخعیؒ کا مذہب ہے اور اور صحیح سند سے ان سے ثابت ہے لیکن امام بخاریؒ ان کے اس مذہب کی مخالفت کرتے ہیں) حالانکہ حضرت ابراہیم ؒ نخعی کا یہ مذہب نہیں جو امام بخاریؒ نے ان سے بلا سند نقل کیا ہے امام بخاریؒ کے استاد حافظ ابوبکر بن ابی شیبہؒ نے ان سے باسندِ صحیح مذہب مصنف ص۷۰ ج ۱ میں اس طرح نقل کیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؒ نے فرمایا کہ قرآن مجید کی پوری آیت نہیں پڑھی جاسکتی البتہ آیت سے کم پڑھی جاسکتی ہے۔
(وکیع عن سفیان عن مغیرۃ عن ابراہیم قال تقرء مادون اال یۃ ولا تقرء آیۃ تامّۃ)
اس طرح حضرت ابن عباسؓ سے بھی امام بخاری ؒ نے جو مذہب نقل کیا ہے بلا سند ہے جو کہ صحیح نہیں ہے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیرمقلد رفع یدین اور آمیں کے ص ۱۲۰ میں لکھتے ہیں جیسے بخاری میں تعلیقات ہیں اور ان کی صحت ضروری نہیں۔
البتہ سنن بیہقی میں یہ مکالمہ باسند مذکور ہے لیکن علامہ ماردینیؒ الجوہرالنقی ص۱۴۰ ج ۱ میں لکھتے ہیں کہ اس سند میں ایک جماعت ہے جو مجہول ہے جن کی توثیق کا کوئی پتہ نہیں وثالثا ً حضرت ابن المبارک ؒ مروزی ہیں اور آپ کوفہ میں ریائش پڈیر ہوگئے اور باب اوّل میں اہلِ کوفہ و عراق کا ترک رفع یدین پر اجماع نقل کیا جاچکا ہے حضرت ابن المبارک ؒ اجماع سے کیسے باہر ہیں ورابعاً حضرت ابوبکربن عیاشؒ المتوفی ۱۹۵ ھ کے حوالہ سے باب اوّل میں گذر چکا ہے کہ تمام فقہاء لا ترک رفع الیدین پر اجماع ہے اور حضرت ابن المبارک ؒ فقیہہ ہیں جیسا کہ مبارک پوریؒ کے حوالہ سے اسی حدیث کے تحت گذر ا اور پھر ابن المبارک ؒ المتوفی ۱۸۱ھ میں اگر یہ رفع الیدین کرتے تو حضرت ابوبکر بن عیاشؒ کو فی کو علم ہوتا کیونکہ ان کا زمانہ اور مسکن تقریباً ایک ہے وخامساً۵ جس طرح ابن المبارک ؒ نے ابن مسعودؓ سے تر ک رفع الیدین کی روایت بیان کی ہے اس طرح امام شعبیؒ سے ترک رفع الیدین کا عمل نقل کرنے والے بھی ابن المبارکؒ ہیں اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیرمقلد ے حوالے سے یہ بات گزرچکی ہے کہ اس راوی کا مذہب وہی سمجھا جائےگا جوحدیث میں ہے خواہ نقل کرنے والے کچھ نقل کریں وسادساً ۔ امام نوویؒ شرح مسلم ص۱۶۸ ج۱ میں اور علامہ ابن حزم طاہریؒ محلّی ص۸۷ج۴ میں فرماتے ہیں کہ ترک رفع الیدین کے قائل حضرت امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے اصحاب ہیں آھ۔ اس میں بلا استثنا ء حضرت ابن المبارکؒ بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں وسابقاً۷ حضرت ابن المبارکؒ فرماتے ہیں کہ جس مسئلہ پر حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت سفیان ثوریؒ متفق ہو جائیں میرامسلک بھی وہی ہوتا ہے بحوالہ تبییض الصحیفہ ص۱۷ اللعلاّمۃ السیوطیؒ وتاریخ بغداد ص۳۴۳ ج۱۳، بحمداللہ تعالیٰ یہ دونوں ہستیاں ترک رفع الیدین پر متفق ہیں اور ترک رفع الیدین کی یہ حدیث بھی حضرت ابن المبارک ؒ نے حضرت سفیان ثوریؒ سے نقل کی ہے دثامناً۸ حضرت ابن المبارک ؒ فرماتے ہیں کہ اگر حدیث معروف مشہور ہو اور وہا ں رائی پڑجائے تو پھر رائی مالکؒ سفیان ثوریؒ وابوحنیفہؒ کی طرف ہونی چاہیئے مگر ابوحنیفہؒ کی رائے بہت اچھی ہوتی ہے۔ بحوالہ تاریخ بغدار ص۳۴۳ج۱۳ بحمداللہ تعالیٰ یہ تینوں حضرات ترک رفع الیدین پر متفق ہیں۔
اعتراض۲:- حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں (لم یثبت حدیث ابن مسعود ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یرفع یدییہ اِلاّ فی لول مرۃ)
جواب:-۱ حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود سے ترک رفع الیدین کی کئی روایات بیان کی گئی ہیں(۱) ایک تو یہی حدیث ہے جو زیر بحث ہے اور خود حضرت ابن المبارکؒ کے طریق سے مروی ہے اس کے الفاظ یہ نہیں جو جرح میں مذکور ہیں بلکہ اس کے الفاظ اس طرح ہیں۔(الا اخبرکم بصلوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال فقام فرفع ید یہ اول مرۃ ثم لم یعد )(۲) دوسری روایت تر مذی وغیرہ میں ہے جس کی سند میں حضرت ابن المبارکؒ نہیں ہے لیکن اس حدیث ے الفاظ بھی جرح سے نہیں ملتے اس کے الفاظ اس طرح ہیں(اَلاَ اصلّی بکم صلوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلّٰی فلم یرفع ید یہ اِلاّ فی اول مرۃ) تیسری روایت طحادی میں ہے (عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم انہ کان یرفع ید یہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود) اور حضرت ابن المبارک ؒ کی جرح بھی اسی حدیث کے بارے ہے اور اس کا جواب وہاں دیا جائےگا (۴) چوتھی روایت دار قطنی بیہقی وغیرہ میں ہے (عن ابن مسعودؓ قال صلّیت مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکرؓ وعمرؓ فلم یرفعوا ایدیہم الاّ عند الا فتتاح) (۵) مسند اعظم کی روایت اس طرح ہے: (ان عبدؓاللّٰہ بن مسعود کان یرفع یدیہ فی اول التکبر ثم لا یعودالی شئی من ذالک ویأثر ذالک عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
قارئین کرام ان روایات کے ملاحظہ کرنے کے بعد آپ نے معلوم کرلیا ہوگا کہ جرح کے الفاظ تیسری حدیث طحاوی والی کے الفاط حدیث سے ملتے جلتے ہیں ان باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی آدمی اس حدیث پر ابن مبارکؒ کی جرح چسپاں کرنے کی کوشش کرے تو اس کا نراتعصب یاکم عقلی ہے۔
حضرت ابن المبارکؒ کی جرح کی اصل وجہ ملاحظہ ہو: حضرت ابن المبارکؒ ترک رفع الیدین کی جس روایت کے راوی ہیں اس میں حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی نماز کا نقشہ لوگوں کو پڑھ کر دکھایا ہے۔ لیکن طحاوی والی روایت میں نہ نقشہ کا کوئی ذکر ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ تکلّم کاذکر ہے بلکہ اس میں ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ پہلی مرتبہ کے سوا رفع الیدین نہ کرتے تھے چونکہ حضرت ابن المبارکؒ نے یہ روایت اس طرح نہ سنی تھی اس لیے انہوں نے اعتراض کر دیا کہ یہ حدیث ثابت نہیں مگر یہ ابن المبارکؒ کا خیال ہے کیونکہ جو صحابیؓ جناب رسول اللہﷺ کی نماز کا عملاً نقشہ بیان کرتا ہے جس میں رفع الیدین نہیں اگر  کسی موقعہ پر وہ قولاً یہ فرمادے کہ جناب رسول اللہﷺ رفع الیدین نہ کرتے تھے تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے۔ اور ان دونوں باتوں میں کیا تعارض ہے؟
جواب ۲:- اگر بالفرض یہ جرح اسی حدیث کے بارے ہو جس کے ابن المبارکؒ خود راوی ہیں تو (معاذ اللہ تعا لیٰ) پھر تو حضرت ابن المبارکؒ اس وعید کے تحت داخل ہوں گے ( من کذب علّی متعمّدً افلیتبوأ مقعلدہٗ من النّار اوکما قال النبی صلی اللّہ علیہ وسلم ) حالانکہ نہ جرح اس حدیث پر ہے اور نہ ابن المبارکؒ اس وعید کے مستحق ہیں۔
جواب۳ :- حضرت ابن المبارکؒ خود فرماتے ہیں کہ سندِ حدیث دین کا حصّہ ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کا جو خیال ہوتا وہی کہہ دیتا (مقدمہ مسلم ص ۱۲ و سنن ترمذی ص۲۳۶ ج۲ ) حضرت ابن المبارکؒ کا خیال درست نہیں کہ طحاوی والی روایت ثابت نہیں حالانکہ سند اُس کی بھی اس حدیث کی طرح صحیح ہے جب سند صحیح ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
جواب ۴:- علامہ ابن دقیق العیدؒ (املتوفی۷۰۲ھ جن کو علامہ ذہبیؒ ان القاب سے یاد کرتے ہیں الامام الفقیہہ املجتھدؔاملحدؔث الحافؔظ العّلاؔمۃ شیخ الاسلام تقی الیدین ابوالفتح محمد بن علی بن وہب (الیٰ) المالکی الشافعی تذکرۃ الحفاۃ ص۲۶۲ ج ۴ ) اس جرح کا جواب یوں دیتے ہیں۔ (بان عدم ثبوت الخبر عندابن المبارک لا یمنع من النظرفیہ وھدیدور علی عاصربن کلیب وقدوثقہٗ ابن معین)
بحوالہ نصب الرایہ ص۳۵۹ج۱ وفتح المہلم ص۱۳ج۲ یضی حضرت ابن مبارکؒ کے ہاں حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے ان کی توثیق کی ہے۔ الحاصل ابن المبارکؒ جس حدیث کے راوی ہیں جرح اس پر نہیں بلکہ دوسری پر ہے اللہ تعالیٰ غیر مقلدین حضرات کو صحیح سمجھ نصیب فرمادے آمین۔
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے              دے آدمی کو موت پر یہ بداداء نہ دے

No comments:

Post a Comment