12 Sept 2013

رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات

رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ ہدیٰ کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئی ہیں لہذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتہاد کو باطل وغلط نہیں کہا۔
اور یہی حال ان مجتہدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتہادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتہاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں۔




رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات


1=احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:

قوله إلا في سبع أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها

2 = مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ،
مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ،


 ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) المدونة الكبرى للإمام مالك ج 1ص 107 – دار الفكر بيروت 

امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں .

امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخیاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہےعلامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں۔



وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك " الی ان قال " والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی 


علامہ عبد الرحمن الجزيري نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے

المالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري ' الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين

3 = شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے۔

قال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة

4 = حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے۔

مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه .كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة۔

رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات

مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441 میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے. ( فتاوی نذیریہ جلد 1 صفحہ 444)


مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)

اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)


نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(روضہ الندیہ, صفحہ 148)



اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔


علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں


 سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔

یعنی اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں۔


الشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم سعودی عرب فرماتے ہیں:


السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته اه

"تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئیے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔(مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)


نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے:



وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة


"رفع الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے"(مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169) 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں کا رفع یدین 
سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: 
غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔'' ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131)

جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ 

یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ 
سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں۔ ّ''امام احمد اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، 

چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین انس، ابن عمر، نافع، طاؤس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے''۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)

یہاں علامہ البانی رح نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور ست اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟

6 comments:

  1. wah kamal kar diya, mashaAllah

    ReplyDelete
  2. لاجواب، دل خوش کردیا

    ReplyDelete
  3. السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ۔
    محترم۔ غیرمقلدین امام مالک سے رفع الیدین کا دوام پیش کرتے ہیں اور اس پر وہ یہ دلیل دیتے ہیں:
    قال أشهب بن عبد العزيز: صحبت مالك بن أنس قبل موته بسنة فما مات إلا وهو يرفع يديه فقيل ليونس وصف أشهب رفع اليدين عن مالك قال سئل أشهب عنه غير مرة فكان يقول يرفع يديه إذا أحرم وإذا أراد أن يركع وإذا قال سمع الله لمن حمده. (التمهيد 9/222).

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ محض دعوی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مالکیہ نے ترک رفع کو اختیار کیا ہے، چنانچہ امام سحنون نے المدونة الکبری (1/165) میں ذکر کیا ہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نے فرمایا کہ مجھے رفع یدین معلوم نہیں ہے، نہ ہی جھکنے کے وقت اور نہ ہی اٹھنے کے وقت سوائے تکبیر تحریمہ کے وقت کہ تھوڑا سا ہاتھ اٹھایا جائے گا، ابن القاسم رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمة الله عليه کے یہاں رفع یدین ضعیف ہے مگر تکبیر احرام میں۔

      ابن عبدالبر رحمة الله عليه کی کتاب التمہید میں ہے کہ: واختلف العلماء فی رفع الیدین فی الصلاة فروی ابن القاسم وغیرہ عن مالک أنہ کان یریٰ رفع الیدین فی الصلاة ضعیفًا الا في تکبیرة الاحرام وحدہا، وتعلق بہٰذہ الروایة عن مالک أکثر المالکیین.

      ترجمہ: اور نماز میں رفع یدین کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ ابن القاسم وغیرہ نے امام مالک رحمة الله عليه سے روایت کیاہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نماز میں رفع یدین کو ضعیف سمجھتے تھے مگر صرف تکبیر احرام میں،اور امام مالک رحمة الله عليه کی اس روایت پر اکثر مالکیین کا اعتماد ہے۔ ملاحظہ ہو التمہید(9/212).....

      مزید تفصیل کیلئے اس پوسٹ کے آخر میں دیکھئے "رفع یدین کے سلسلہ میں امام مالک رحمة الله عليه کے مذہب کی تحقیق"

      https://tark-e-rafayadain.blogspot.com/2016/07/blog-post.html

      Delete