5 Jan 2014

حضرت براء بن عازب رضی اللہ اور ترک رفع یدین

’’اَلْاِمَامُ الْحَافِظُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمانُ بْنُ ثَابِتٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍرضی اللہ عنہما یَقُوْلُ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحاذِیَ مَنْکَبَیْہِ لَایَعُوْدُ بِرَفْعِھِما حَتّٰی یُسَلِّمَ مِنْ صَلَا تِہٖ۔‘‘
(مسند ابی حنیفہ بروایۃابی نعیم  رحمہ اللہ ص۳۴۴،سنن ابی داؤد ؛ج۱ص۱۱۶ )
ترجمہ:حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہما فرماتےہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کرتےتورفع یدین کرتے، (اسکےبعدپوری نماز میں) سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں  کرتے تھے۔‘‘

اعتراض نمبر1:        امام ابونعیم سے لے کر امام ابوحنیفہ تک اس روایت کے سارے راوی ……سب مجہول ہیں“
جواب:     جس کتاب کی نسبت اپنے مصنف کی طرف مشہور و [کہ یہ کتاب فلاں مصنف کی ہے] تو مصنف سے لے کر ہم تک اس کی سند دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔یہ شہرت اس سند  کے دیکھنے سے بے نیاز کردیتی ہے۔
محدثین نے مختلف ادوار میں امام صاحب کی مروی احادیث جمع کر کے”مسند“لکھی ہے۔ ان مسانید میں امام صاحب کی مرویات موجود ہیں۔امام خوارزمی رحمہ اللہ نے پندرہ مسانید کی روایات”جامع المسانید“میں جمع کر دی ہیں۔ مسند ابی نعیم بھی ان مسانیدمیں سے ایک ہےجن سے ”جامع المسانید“میں روایات لی گئی ہیں۔ ان مسانید کی امام صاحب سےنسبت مشہور ہے، لہذا مذکورہ قاعدہ کی رو سےجامعینِ مسانید اور امام صاحب کے درمیان  سند کی ضرورت نہیں ،چہ جائیکہ ان کی توثیق وغیرہ بیان کی جائے۔
تنبیہ: راقم نے کتب کی طرف مراجعت کی تو درج ذیل محدثین کے ہاں یہ قاعدہ پایا:
(امام سخاوی )فتح المغیث ج1ص44(،امام ابن حجر )النکت ص56(،علامہ جزائری )توجیہ النظر ص378(،امام سیوطی )تدریب الراوی ج1ص147(،امام کرمانی)شرح بخاری ج1ص7 --- وللہ الحمد
اعتراض نمبر2:         سنن ابی داؤد میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی طرف  منسوب دوسری روایت دوسندوں سے موجود ہے،جس کی ایک سند میں یزید بن ابی زیاد……ضعیف راوی ہے اور دوسری سند میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ
جواب:    یزید بن ابی زیاد:آپ بخاری تعلیقاً،صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔(تقریب لابن حجر: رقم7711)
امام جریر بن عبدالولید ،امام ابوداود،امام ترمذی(بتحسین وتوثیق روایتہ) امام احمد بن حنبل،امام احمد بن صلاح،امام سفیان الثوری،امام ابن دقیق العید،امام ابوالحسن،امام ذہبی رحمہم اللہ وغیرہ نے انہیں ثقہ،صدوق اور عدل قرار دیاہے۔
(الجرح والتعدیل ج9ص327،سیراعلام النبلاء ج5ص380،381،تاریخ الثقات لابن شاہین ص256،معرفۃ الثقات للعجلی ج2ص364،نصب الرایہ ج1ص477وغیرہ)
نیزامام مسلم،علامہ ہیثمی،امام عجلی،امام یعقوب بن سفیان وغیرہ محدثین نے بھی اس کی تو ثیق کی ہے اور اس سے روایت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے نور الصباح ج1ص158تا161)
اہلِ انصاف کے لیے تو یہ حوالہ جات کافی ہوں گے ،لیکن معاندین کے لیے شاید مفید ثابت نہ ہوں تو بطورِ پھکی“ انہی کے ٹولے کے فرد کا حوالہ پیشِ خدمت ہے۔مشہور غیرمقلد احمد محمد شاکر شرح ترمذی میں یزید کی کافی توثیق نقل کرنے کے بعد لکھتےہیں:
والحق انہ ثقۃ……وھذا نہایۃ التوثیق من شعبۃ وہو امام الجرح والتعدیل(شرح الترمذی ج1ص195بحوالہ نورالصباح ج1ص159،160)
ترجمہ: یہ انتہائی درجہ کی توثیق ہےامام شعبہ سے اور وہ[امام شعبہ] جرح و تعدیل کے امام ہیں۔
محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ :آپ ثقہ،صدوق اور افقہ الدنیا تھے۔ (تفصیل دیکھیے نورالصباح ج1ص164 تا 167)
محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ جمہور کے ہاں صدوق اور ثقہ ہیں۔ائمہ نے ان کو افقہ اہل الدنیا،فقیہ ،صدوق، صاحب سنۃ، جائز الحدیث،محلہ الصدق وغیرہ فرمایاہے۔پندرہ محدثین نے ان کی توثیق وتعدیل کی ہے۔
خود غیر مقلدین کے بزرگوں (قاضی شوکانی،عبدالرحمن مبارک مبارکپوری،احمد محمد شاکر،حافظ عبداللہ روپڑی)کی طرف سے بھی محمد بن ابی لیلیٰ کی توثیق ثابت ہے۔(نورالصباح کا حوالہ مذکورہ بالا دیکھئے)۔
چونکہ بعض حضرات نے اس پر کلام کیا ہے، اس لیے اس کی حدیث درجہ حسن کی ہے ،جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے:حدیثہ فی وزن الحسن(تذکرۃ الحفاظ ج1ص128) اس کی حدیث درجہ حسن کی ہے۔
احمد محمد شاکر غیرمقلد لکھتے ہیں:
ومثل ھذا [ابن ابی لیلیٰ] لایقل حدیثہ عن درجۃ الحسن المحتج بہ واذا تابعہ غیرہ کان الحدیث صحیحاً(شرح الترمذی لاحمد شاکر بحوالہ نورالصباح ج1ص166،167)
ترجمہ:محمد بن ابی لیلیٰ جیسے شخص کی حدیث حسن درجہ سے جو قابل احتجاج ہے، کم نہیں اور جب کوئی حدیث اس کی روایت کی مؤید مل جائے تو اس کی حدیث صحیح ہو جائے گی۔

No comments:

Post a Comment