16 Jul 2016

ترک رفع یدین کے سلسلہ میں ابن عمر رضى الله تعالى عنه کی حدیث (دلیل نمبر 4) کی تصحیح اور البانی کی تردید

عن ابن عمررضى الله تعالى عنه مرفوعاً : أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یَرفع یَدیہ اذا افتتح الصلٰوة ثم لایعود .
ترجمہ: ابن عمررضى الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے اس کے بعد نہیں کرتے تھے۔
مذکورہ حدیث کے سلسلہ میں البانی رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ یہ باطل اور موضوع حدیث ہے، جس کو امام بیہقی نے اپنی کتاب (الخلافیات) کے اندر محمد بن غالب کی حدیث سے روایت کیاہے وہ احمد بن محمد البیروتی سے اور وہ عبداللہ ابن عون الخرّاز سے اور وہ امام مالک سے اور وہ امام زہری سے اور وہ حضرت سالم سے اور وہ اپنے والد عبداللہ ابن عمررضى الله تعالى عنه سے اور عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنه نبی صلى الله عليه وسلم سے۔
اس پر البانی رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ اس سند کا ظاہر ٹھیک ہے جس کی بنا پر بعض حنفیہ دھوکہ کھاگئے اس کے بعد امام حافظ مُغُلْطَائی کا قول: (لابأس بسندہ) جو اس حدیث کے سلسلہ میں وارد ہوا اس کو ذکر کرکے بطور تعجب کہتے ہیں کہ صحیحین، سنن اربعہ، اور مسانید میں امام مالک کے طریق سے مذکورہ سند کے ساتھ ابن عمررضى الله تعالى عنه سے رکوع میں بھی رفع یدین منقول ہے،اور ان کو مزید تعجب اس بات پر ہورہا ہے کہ اس حدیث کے سلسلے میں امام بیہقی اور ان کے شیخ امام حاکم نے باطل اور موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔ شیخ ملا محمد عابد سندھی رحمة اللہ علیہ نے امام حاکم اور بیہقی کے اس حدیث کو باطل اور موضوع قرار دینے پر تعاقب کیاہے اور فرمایا ہے کہ محض حدیث کے موضوع اور باطل ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع اور باطل نہیں ہوسکتی تاآنکہ وجوہ طعن ثابت نہ ہوں،اور ابن عمررضى الله تعالى عنه کی اس حدیث کے رجال رجال الصحیح ہیں لہٰذا اب ضعف نہیں رہا مگر یہ کہ امام مالک رحمة الله عليه سے لینے والے راوی مطعون ہوں لیکن اصل طعن نہ ہونا ہے چنانچہ یہ حدیث میرے نزدیک یقینی طور پر صحیح ہے، اور ابن عمررضى الله تعالى عنه نے جس وقت رفع کو دیکھا تو رفع کو بیان کیا اور جس وقت عدم رفع کو دیکھا تو اس حالت کی خبر دی، لیکن ان کی حدیث میں ان دو عملوں میں سے متعین طورپر کسی ایک پر ہمیشگی اور دوام کا پتہ نہیں چلتا، اور جہاں تک حدیث شریف میں لفظ (کَانَ) ہے تو وہ دوام اور ہمیشگی پر ہروقت دلالت نہیں کرتا کیونکہ آپ صلى الله عليه وسلم کے بارے میں وارد ہے کہ : (کان یَقف عند الصخرات السُّود بعرفة) ترجمہ: آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ میں کالے پتھروں کے پاس ٹھہرتے تھے، حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج (حجة الوداع) کیاہے، لہٰذا اس حدیث کے تضعیف کی کوئی سبیل نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو موضوع کہا جائے۔ امام سندھی رحمة الله عليه کا کلام ختم ہوا، دیکھئے (الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن) معہ حاشیہ ،ص:۲۵۲۔
اس مقام پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کو امام مالک رحمة الله عليه سے لینے والے عبداللہ ابن عون الخَرّاز ہیں جیساکہ گذرا اور یہ مسلم اور نسائی کے رجال میں سے ہیں ابن حجر رحمة الله عليه نے تقریب کے اندر ان کو ثقہ ، مامونٌ، اور عابدٌ کہاہے۔ ان کا ترجمہ تقریب التہذیب، ص:۳۱۷ رقم (۳۵۲۰) اسی طرح تہذیب الکمال ۱۵/۴۰۲ پر ملاحظہ ہو۔
اوپر ملامحمد عابد سندھی کا تعاقب حاکم اور بیہقی کے اقوال پر گذرا جس کو البانی رحمة الله عليه نے بنفس نفیس مولانا عبدالرشید نعمانی رحمة الله عليه کا قول سمجھ کر ان پر رد کیاہے اور جواب دینے کی کوشش کی ہے، جبکہ نعمانیرحمة الله عليه محض ناقل ہیں۔ قائل ملامحمد عابد سندھیرحمة الله عليه ہیں۔
بہرحال البانی رحمة الله عليه اپنی کتاب (سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة) کے اندر فرماتے ہیں کہ امام حاکم اور بیہقی نے بغیر دلیل کے حدیث کو باطل اور موضوع نہیں کہا ہے بلکہ ان دونوں حضرات کا دعویٰ دلیل کے ساتھ ہے اس شخص کیلئے جو سمجھنا چاہے، اور وہ حدیث کا شاذ ہونا ہے،اس کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں جو ان دو اماموں کے فیصلہ کی تائید کرتے ہیں،اور قطع نظر دیگر دلائل سے صرف اتنی بات بھی مذکورہ حدیث کے بطلان کیلئے کافی ہے کہ خود امام مالک رحمة الله عليه نے اپنی کتاب (موطأ) شریف کے اندر اس مذکورہ حدیث کے خلاف حدیث کو ذکر کیا ہے، اور کیوں نہ ہو جبکہ امام مالک رحمة الله عليه سے ناقلین کی ایک جماعت اس کے خلاف ذکر کررہی ہے، دیکھئے نسائی شریف ۱/۱۶۱، بخاری شریف ۱/۱۰۲، مسند احمد ابن حنبل ۲/۶۲ رقم الحدیث (۵۲۷۹) وغیرہ، متعدد سند کے ساتھ امام مالک عن ابن شہاب عن سالم بن عبداللّٰہ عن أبیہ کے طریق سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے تھے اور جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے اور جب اپنے سر کو رکوع سے اٹھاتے تواسی طرح ان دونوں کو اٹھاتے، الحدیث والسیاقُ للبخاری عنہ۔ آگے البانی کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث جس میں رکوع میں جانے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع یدین کاتذکرہ ہے اُس باطل حدیث کے مخالف جس میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع کا تذکرہ ہے امام مالک رحمة الله عليه سے تواتر کے ساتھ منقول ہے چنانچہ ابن عبدالبر رحمة الله عليه نے امام مالک رحمة الله عليه سے ناقلین کے اسماء کو شمار کیاہے، جن کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے، اور ابن شہاب رحمة الله عليه سے اس حدیث کو روایت کرنے میں امام مالک رحمة الله عليه کی ثقات کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے۔ دیکھئے بخاری شریف ۱/۱۰۲، مسلم شریف ۱/۱۶۸، ابوداؤد شریف ۱/۱۰۴، ترمذی شریف ۱/۵۹، مسند احمد ابن حنبل ج۲/رقم الحدیث ۵۰۸۱ و ۴۵۴۰ و ۶۳۴۵ وغیرہ۔
اور امام زہری رحمة الله عليه کی جابر ابن یزید الجعفی نے متابعت کی ہے جس کو امام طحاوی نے اور امام احمد رحمة الله عليه نے اپنے مسند ج۲/ رقم الحدیث (۵۰۵۴) پر ذکرکیاہے، اور جعفی اگرچہ ضعیف ہیں مگر حدیث کے طرق متعدد ہیں جس کی بنا پر امام طحاوی نے خاموشی اختیار کی ہے۔
اور سالم کی نافع مولیٰ ابن عمر رحمة الله عليه نے متابعت کی ہے جو بخاری، ابوداؤد ، بیہقی وغیرہ میں موجود ہے۔ دیکھئے بخاری شریف ۱/۱۰۲، ابوداؤد شریف ۱/۱۰۸، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۱۳۶۔
عن عبید اللّٰہ عنہ، اس کے علاوہ دو، تین متابعات کو اور بھی ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضى الله عنه سے یہ روایات اور طرق صحیحہ عبد اللہ ابن عون الخراز والی روایت کے بطلان پر چند وجوہ سے دلالت کرتی ہیں:
(۱) جس کی طرف امام حاکم اور بیہقی رحمة الله عليه نے اشارہ کیا تھا کہ تمام ثقہ راوی اس حدیث کو امام مالک رحمة الله عليه سے لینے میں عبداللہ بن عون کی مخالفت کرتے ہیں اور اس رفع کو ثابت کرتے ہیں جس کی ابن عون کی حدیث میں نفی کی گئی ہے اور ان کی تعداد حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے،اور یہاں جانب مقابل میں جتنے افراد ہیں اگر ان سے بہت کم افراد کی مخالفت بھی کوئی ایک کرے تو اس سے اس فرد واحد کی روایت اہل علم کے یہاں شاذ اورمردود ہوجاتی ہے، چہ جائیکہ یہاں وہ بڑی تعداد میں ہیں۔
(۲) اگر امام مالک رحمة الله عليه کو عدم رفع والی حدیث کا علم ہوتا تو اس کو اپنی کتاب (موطأ) شریف کے اندر ذکر کرتے اور اس پر عمل کرتے، حالانکہ دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں پائی جاتی، پہلی بات تو اس لئے کہ امام مالک رحمة الله عليه نے اُس حدیث کے مخالف حدیث کو اپنی کتاب (موٴطأ) شریف کے اندر ذکر کیا ہے، رہ گئی دوسری بات تو اس لئے کہ ان کا عمل اس کے خلاف ہے اور وہ تکبیر تحریمہ کے بعد بھی رفع یدین کے قائل تھے، جیساکہ امام ترمذی رحمة الله عليه نے اپنی کتاب ترمذی شریف کے اندر اس کو نقل کیا ہے۔ (ترمذی شریف ۲/۳۷)تحقیق احمد محمد شاکر اور امام خطابی اور قرطبی رحمة الله عليه نے اس کو امام مالک رحمة الله عليه کا آخری اور اصح قول نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو فتح الباری (۲/۲۸۰)
(۳) ابن عمر رضى الله عنه کا نبی  صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد رفع مذکور پر محافظت کرنا، کیونکہ اگر ان سے عدم رفع والی حدیث ثابت ہوتی تو رفع نہ کرتے، باوجودیکہ ابن عمر رضى الله عنه صحابہ کرام میں سب سے زیادہ آپ  صلى الله عليه وسلم کی اتباع کے حریص تھے۔
علاوہ ازیں ابن عمر رضى الله عنه سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ جب وہ کسی کو عدم رفع کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ (سنن الدارقطنی ۱/۲۸۹) کتاب الصلوٰة باب ذکر التکبیر ورفع الیدین عند الافتتاح والرکوع والرفع منہ. (بخاری جزء رفع الیدین ص۸)
(۴) اس حدیث کوابن عمر رضى الله عنه سے لینے والے ان کے صاحبزادے حضرت سالم ہیں، حالانکہ ان سے بھی رفع یدین ثابت ہے جیساکہ امام ترمذی نے اس کو ذکر کیا ہے، پس اگر عدم رفع والی حدیث جس کو سالم اپنے والد سے نقل کررہے ہیں حق ہوتی تو اس کی بالکل مخالفت نہ کرتے جیساکہ یہ بات ظاہر ہے۔
لہٰذا حاکم اور بیہقی کا ابن عون والی روایت کو باطل قرار دینا صحیح ہے، اور شیخ نعمانی رحمة الله عليه کا یہ قول کہ (یہ حدیث میرے نزدیک یقینی طور پر صحیح ہے) محال ہے۔
اور شیخ نعمانی رحمة الله عليه نے جو یہ کہہ کرجمع کیا تھا کہ مختلف احوال کی حکایت ہے وہ بھی باطل ہے کیونکہ دو حدیثوں میں جمع کرنے کی شرط یہ ہے کہ دونوں حدیثیں ثابت ہوں، لیکن اس وقت جبکہ ایک حدیث صحیح اور دوسری باطل ہو تو ایسی صورت میں جمع کرنا جائزنہیں ہے۔ اور یہ بات کس طرح معقول ہوکہ ایک ہی راوی ایک مرتبہ کہے کہ رفع نہیں کرتے تھے اور دوسری مرتبہ کہے کہ رفع کرتے تھے اور وہ خود ایک مرتبہ بھی ان دونوں حالتوں کو ایک عبارت میں جمع نہ کرے، پس یہ ایسا ہی ہے جس کی احادیث میں کوئی مثال نہیں جانی جاتی۔ ہاں اگر اس طرح کا جمع دوصحابیوں سے مروی احادیث کے سلسلہ میں کیا جائے تو ٹھیک ہے۔
البانی کا کلام ختم ہوا دیکھئے (سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة)۲/۳۴۶-۳۵۰۔
البانی کی تردید: عدم رفع والی حدیث کو حاکم اور بیہقی رحمة الله عليه کے موضوع اور باطل قرار دینے پر ملامحمد عابد سندھی رحمة الله عليه نے کہا تھا کہ محض دعوی کردینا حدیث کے بطلان کیلئے کافی نہیں ہے جب تک کہ وجوہ طعن ثابت نہ ہو اس پر البانی رحمة الله عليه نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ حاکم اور بیہقی رحمة الله عليه کا فیصلہ دلیل کے ساتھ ہے اور وہ حدیث کا شذوذ سے محفوظ نہ ہونا ہے،اور البانی رحمة الله عليه کے زعم کے مطابق شذوذ وضع اور بطلان کو مستلزم ہے۔
لیکن ہم کہتے ہیں کہ شاذ ہونا صحت اصطلاحی کے منافی نہیں ہے، نیز البانی رحمة الله عليه کا زعم محدثین کے قواعد کی رو سے غیرمسموع ہے، کیونکہ محدثین کے یہاں شذوذ کی وجہ سے حدیث کا موضوع اور باطل ہونا تو درکنار اسی میں اختلاف ہے کہ شذوذ ہونا صحت کے منافی ہے یا نہیں چہ جائیکہ موضوع اور باطل ہو۔
امام ابن الصلاح نے حدیث صحیح کی تعریف بایں الفاظ کی ہے: الحَدیثُ المُسْنَدُ الّذِیْ یَتّصِلُ اسنادُہ بنقلِ العدلِ الضابطِ عنِ العدلِ الضابطِ الٰی منتہاہ ولا یکونُ شاذًا ولاَ مُعلَّلاً . (مقدمة ابن الصلاح مع التقیید والایضاح، ص:۲۱)
ترجمہ: صحیح وہ حدیث مسند ہے جس کی سند متصل ہو، شروع سے آخر تک عادل و ضابط نے عادل و ضابط سے نقل کیا ہو،اور شاذ اور منکر نہ ہو۔
اس پر امام سیوطی رحمة الله عليه نے فرمایا ہے کہ ابن الصلاح رحمة الله عليه نے شاذ سے اپنی مراد کو واضح نہیں کیا جبکہ خود انھوں نے شاذ کے تین معنی ذکر کئے ہیں: (۱) مُخَالفةُ الثقة لأرجح منہ ثقہ کا اپنے سے اوثق کی مخالفت کرنا۔ (۲) تفرّد الثقة مطلقًا، ثقہ کا مطلقاً تفرد خواہ مخالفت ہو یا نہ ہو (۳) تفرّد الراوی مطلقاً، راوی کا مطلقاً تفرد۔
اور اخیر کے دو معنوں کو رد کردیا ہے لہٰذا ظاہر یہی ہے کہ ان کی مراد پہلا معنی ہی ہے۔
اس کے بعد امام سیوطی رحمة الله عليه نے حافظ ابن حجر رحمة الله عليه کا قول نقل کیا ہے کہ: صحیح کی تعریف میں عدم شذوذ کی شرط لگانا اور فقدان شرط کی صورت میں اس حدیث کو صحت کادرجہ نہ دینا یہ امر مشکل ہے، کیونکہ جب سند متصل ہے اور اس کے تمام رواة عادل وضابط ہیں تو اس حدیث سے علت ظاہرہ منتفی ہوگئی پھر جب وہ معلول نہیں رہی تو اس پر صحت کا حکم لگانے سے کون سی چیزمانع بن رہی ہے محض اس کے راویوں میں سے کسی ایک کا اپنے سے اوثق یا اکثر کی مخالفت کردینا ضعف کو مستلزم نہیں ہے بلکہ وہ صحیح اوراصح کی قبیل سے ہوگی یعنی جس حدیث میں مخالفت ہے اس کو صحیح اور اوثق یا اکثر کی روایت کو اصح کہا جائے گا، حافظ فرماتے ہیں کہ یہ صرف میرا ہی دعویٰ نہیں ہے بلکہ ائمہ محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا گیا کہ وہ اس سند پر جس میں ثقہ اوثق کی مخالفت کررہا ہے عدم صحت کا حکم لگاتے ہوں، ہاں یہ بات تو موجود ہے کہ وہ صحت میں دونوں کو برابر کا درجہ نہیں دیتے بلکہ بعض کو بعض پر مقدم کرتے ہیں۔
صحیحین میں احادیث شاذہ کی چند مثالیں
اس کی مثالیں صحیحین وغیرہ میں بھی موجود ہیں۔
من جملہ ان مثالوں میں حضرت جابر رضى الله عنه کے اونٹ کا قصہ ہے کہ انھوں نے آپ  صلى الله عليه وسلم کو اپنا اونٹ بیچنے میں کیا ثمن لیا تھا پس بعض روایات میں ہے ”فَاشْترا ہُ مِنّی باُوقیةٍ“ کہ نبی  صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے اونٹ کو ایک اوقیہ میں خریدا، (بخاری۱/۲۸۲) اور بعض راوی نقل کرتے ہیں تو ثمن دوسو درہم ذکر کرتے ہیں،اور بعض چار اوقیہ ذکر کرتے ہیں،اور بعض بیس دینار۔ ملاحظہ ہو بخاری شریف (۱/۳۷۵) اور بعض حدیث میں چار دینار کا تذکرہ ہے بخاری (۱/۳۰۹) اسی طرح بعض حدیث میں ہے کہ حضرت جابر رضى الله عنه نے رکوب کی شرط لگائی تھی کہ مدینہ تک اس پر سوار ہوکر جاؤں گا۔ بخاری (۱/۳۷۵)
اور بعض میں ہے کہ سوار ہونے کی شرط نہیں لگائی تھی،اس اختلاف کے باوجود امام بخاری رحمة الله عليه دونوں طرح کی روایات کو اپنی کتاب صحیح بخاری کے اندر لے آئے ہیں اور ان طرق کو ترجیح دی جس میں رکوب کی شرط ہے، اسی طرح اس حدیث کو ترجیح دی جس میں ثمن ایک اوقیہ ہے۔ غرض یہ ہے کہ بخاری رحمة الله عليه کا دونوں طرح کی حدیثوں کو اختلاف کے باوجود ذکر کرنا اور اپنی کتاب صحیح بخاری کے اندر جگہ دینا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ محض مخالفت اور شاذ ہونا حدیث کو صحت کے درجہ سے نہیں گراسکتا ہے، ورنہ امام بخاری رحمة الله عليه دونوں طرح کی حدیثوں کو بخاری شریف میں نہ لاتے۔
نیز امام مسلم رحمة الله عليه حدیث مالک عن الزہری عن عروة عن عائشة کے طریق سے نبی  صلى الله عليه وسلم کا فجر کی دورکعت سے پہلے لیٹنے کو ذکر کیاہے حالانکہ زہری کے تلامذہ میں سے عام اصحاب جیسے معمر، یونس، عمروبن الحارث، اوزاعی، ابن ابی ذئب، شعیب وغیرہم فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کو ذکر کیا ہے اور جمیع حفاظ نے ان حضرات کی روایات کو امام مالک کی روایت پر مقدم اور راجح قرار دیا ہے اس کے باوجود بھی اصحاب الصحاح نے امام مالک رحمة الله عليه کی حدیث کو اپنی کتابوں کے اندر ذکر کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
ان مثالوں میں سے وہ حدیث بھی ہے جس کو امام بخاری رحمة الله عليه نے مناقب عثمان رضى الله عنه کے تحت ولید بن عقبہ کی قصہ میں ذکر کیا ہے اور اسی میں ہے (فجلدہ ثمانین) کہ ان کو اسّی کوڑہ لگایا، حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے فرمایا کہ یہ وہم ہے خود بخاری کے اندر ہے (فجلد الولید رضى الله عنه أربعین جلدة) کہ ولید کو چالیس کوڑہ لگایا خود امام مسلم رحمة الله عليه نے چالیس کوڑے والی حدیث کو اپنی کتاب مسلم شریف کے اندر ذکر کیا ہے۔ دیکھو فتح الباری:(۴۵۱۷-۴۶)
اس اختلاف کے باوجود کہ اسّی کوڑے والی روایت شاذ ہے امام بخاری رحمة الله عليه نے اپنی صحیح بخاری کے اندر اس کو ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ اور بھی مثالیں ہیں جس کو (الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن) ۲۹۹ تا ۳۰۱ کے حاشیہ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
حافظ ابن حجر رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اگر اس کو اصح اور صحیح ماننے کی صورت میں یہ اشکال کیا جائے کہ اصح پر تو عمل ہورہا ہے لیکن اس کے مقابل میں جو حدیث ہے باوجودیکہ وہ صحیح ہے اس پر عمل نہیں ہورہا ہے لہٰذا صحیح صرف نام کی رہی۔
اس کا جواب دیتے ہوئے حافظ رحمة الله عليه خود ہی فرماتے ہیں کہ ہر صحیح حدیث کا معمول بہ ہونا ضروری نہیں ہے جیساکہ ناسخ اور منسوخ کا معاملہ ہے کہ حدیث منسوخ کے صحیح ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی۔
علامہ سخاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی ابن حجر رحمة الله عليه کا میلان اس شخص سے نزاع کا ہے جو شاذ کو صحیح کا نام نہیں دیتا، آگے فرماتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے اور مرجوح ہونے کی وجہ سے اس پر ضعف کا حکم لگانا لازم نہیں آتا ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے توقف کیاجائے۔
اور اس کی تائید اس شخص کے قول سے بھی ہوتی ہے جو صحیح اور شاذ کو ایک ساتھ جمع کرکے صحیحٌ شاذٌ کہتا ہے، دیکھئے (فتح المغیث ۱/۱۸)
(ابن حبان اور ابن خزیمہ رحمة الله عليه نے حدیث صحیح کی تعریف میں عدم شذوذ کی شرط نہیں لگائی) ہے ابن حجر رحمة الله عليه نکت کے اندر فرماتے ہیں کہ: ابن حبان نے اتصال اور عدالت کے ساتھ ضبط اور عدم شذوذ وعلت کی شرط نہیں لگائی جیساکہ ابن الصلاح رحمة الله عليه نے صحیح کی تعریف میں لگایا ہے۔
ابن خزیمہ رحمة الله عليه نے اپنی کتاب کا نام رکھا ہے (المسند الصحیح المتصل بنقل العدل عن العدل من غیر قطع فی السند ولا جرحٍ فی النَّقَلةِ) پس اس میں جو شرائط ہیں وہ ابن حبان ہی کے شرائط کے مانند ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ابن حبان ابن خزیمہ کے علوم کو اخذ کرنے والے اور انہیں کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔
اب تک جن باتوں کا تذکرہ ہوا وہ محدثین خاص طور سے اصحاب الصحاح کے مذہب کے مطابق تھیں۔ جہاں تک فقہا اور اصولیین کے مذہب کا تعلق ہے تو ان کے یہاں شاذ ہونا حدیث سے احتجاج اوراس کے مطابق عمل کرنے میں قادح نہیں ہے۔ چنانچہ امام ابن دقیق العید نے (اقتراح) ص۱۸۶ پر ذکر کیا ہے کہ حدیث صحیح کیلئے عدم شذوذ اور علت کی نفی کی شرط لگانا فقہاء کی نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ بہت سارے عِلَلْ جس کی بنا پر محدثین حدیثوں کو معلول قرار دیتے ہیں وہ فقہاء کے اصول کے مطابق جاری نہیں ہوسکتے۔ نیز (شرح الالمام) میں ذکر کیا ہے کہ فقہاء اور محدثین ہر ایک کے اپنے الگ الگ طریقے ہیں، جو دوسرے کے یہاں نہیں ہیں کیونکہ فقہاء اور اصولیین کے قواعد کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر راوی عادل ہے اور جزم کے ساتھ روایت کرتا ہے نیز سچائی اور عدم غلط میں اس کا شمار ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس حدیث جس میں وہ مخالفت کرتا ہے اور جن کی مخالفت کرتا ہے دونوں میں کسی طرح جمع ہوسکتا ہو تواس کی حدیث کو چھوڑا نہیں جائیگا۔
لیکن محدثین کے یہاں باوجودیکہ ثقات وعدول روایت کرنے والے ہوں کسی علت کا وجود انہیں اس روایت پر صحت کا حکم لگانے سے مانع ہوگا۔ انتہی
اس سلسلہ میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه نے بہت ہی عمدہ بحث کی ہے چنانچہ (فتح الملہم) کے مقدمہ میں امام سخاوی کے مذکورہ قول کونقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح کے اندر شاذ کے نہ ہونے کی شرط لگانا اور شاذ کی تفسیر (مخالفةُ الثقة لِمَنْ ہو أرجح منہ) کے ذریعہ کرنا اس طرح کہ دونوں روایتوں کے درمیان جمع کرنا دشوار ہو، تو محدثین شاذ کا حکم لگانے میں محض کثرت عدد اور قوت حفظ کی بنا پر ارجحیت کوملحوظ رکھتے ہیں، اور دیگر وجوہات ترجیح کی طرف التفات نہیں کرتے جبکہ روایتوں کے درمیان وجوہ ترجیحات سو سے بھی زائد ہیں جیساکہ سیوطی رحمة الله عليه نے (تدریب الراوی) میں ذکر کیا ہے۔ ہاں کبھی کبھی راویوں کے بعض دوسرے احوال کو بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن حکم اور معنی کے لحاظ سے جو دیگر وجوہ ترجیح ہیں ان کا خیال نہیں کرتے۔ اور شاید یہ اصطلاح ان کے اپنے موضوع کے اعتبار سے ہے کیونکہ ان کا اصل منصب اسناد پر حکم لگانا ہے۔
گویا انھوں نے اپنے منصب سے خارج چیز کو ان فقہاء اور اصولیین کے حوالہ کردیا ہے جن کاکام متون کو پرکھنا اور اس کے معانی سے بحث کرنا اور بعض کو بعض پر حکم اور معنی کے اعتبار سے ترجیح دینا ہے، اس لئے کہ ہر فن کے رجال ہوا کرتے ہیں جن کو اس فن میں دوسروں پر مقدم کیاجاتا ہے۔
امام ترمذی رحمة الله عليه اپنی کتاب ”جامع ترمذی“ ابواب الجنائز، باب ما جاء فی غسل المیت کے اندر فرماتے ہیں: کہ فقہاء احادیث کے معانی کو زیادہ جاننے والے ہیں۔
ابن حبان رحمة الله عليه کا قول ہے کہ اگر سند کو دیکھا جائے تو شیوخ اولی ہیں اور متن کے اعتبار سے فقہاء اولی ہیں۔ انتہی۔
اور جہاں تک محدثین شاذ کا حکم لگانے میں دونوں حدیثوں کے درمیان جمع کے دشوار ہونے کی شرط لگاتے ہیں تو ایک امر ایک قوم کے یہاں دشوار ہوتاہے لیکن دوسری قوم کے یہاں آسان ہوتا ہے اور ائمہ وفقہاء احادیث کے متون میں جمع آسانی کے ساتھ کرلیتے ہیں انھیں دشواری نہیں ہوتی، لہٰذا اس بات میں فقہاء ہی مقدم ہوں گے۔
نیز صاحب التنقیح ابن عبدالہادی نے شفعہ کے سلسلہ میں عبدالملک ابن ابی سلیمان کی حدیث پر کلام کرنے کے بعد فرمایا ہے: کہ اس حدیث کے سبب سے امام شعبہ رحمة الله عليه کا عبدالملک پر کلام کرنا اس میں قادح نہیں ہے کیونکہ عبدالملک ثقہ ہیں اور امام شعبہ رحمة الله عليه فقہ کے ماہرین میں سے نہیں ہیں کہ احادیث میں تعارض کے وقت جمع کریں، ہاں وہ حافظ ہیں اور امام شعبہ رحمة الله عليه کے علاوہ نے ان پر شعبہ کے تابع ہوکر کلام کیا ہے۔ اس حدیث کو (ترمذی شریف ۱/۱۶۴، اور کتاب العلل ۲۴۰) پر دیکھاجاسکتا ہے۔ پس انصاف یہ ہے کہ جب محدثین کے یہاں شاذ کا حکم لگانا کثرتِ عدد یا قوتِ حفظ اور ان جیسی چیزوں کی بناء پر ہے تو حدیث کا شاذ اور مردود ہونا فقہاء کے یہاں لازم نہیں آتا کہ احکام میں اس سے احتجاج درست نہ ہو۔ کیونکہ وجوہ ترجیحات غیرمحصور ہیں پس بعیدنہیں ہے کہ ایک حدیث راوی کے تفرد یا قصور حفظ کی بناء پر مرجوح ہوجائے، کیونکہ شاذ اگرچہ کسی خاص جہت کی وجہ سے محدثین کے یہاں مرجوح ہونے کی بنا پر مردود ہوتی ہے تو وہ احتمال رکھتی ہے کہ ان کے علاوہ کے یہاں دوسری وجوہات کی بنا پر، متن کے اعتبار سے راجح ہو، لہٰذا محدثین کا شاذ کہہ دینا اس بات کو مانع نہیں ہے کہ ان کا غیر دیگر تمام وجوہات ترجیح کو چھوڑ دے، اور ایک شئی کے دو وجہوں کے اعتبار سے مردود اور مقبول ہونے میں کوئی منافات نہیں۔
شیخ عثمانی رحمة الله عليه کا کلام اختصار کے ساتھ پورا ہوا۔ مقدمہ فتح الملہم ص۵۱ و ۵۲۔
الحاصل: ما قبل کے بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ شاذ محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحت اصطلاحی کے منافی نہیں ہے۔ چہ جائیکہ اسکی وجہ سے وضع اور بطلان لازم آئے،اور یہ اصحاب الحدیث، خاص طور سے مصنّفین صحاح وغیرہ کے نزدیک ہے جہاں تک فقہاء اور اصولیین کا مذہب ہے تو ان کے یہاں معاملہ اور وسیع ہے جیسا کہ ابن دقیق العید اورمحقق عثمانی رحمة الله عليه کے کلام میں گزرا۔
اور اسی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام حاکم اورامام بیہقی رحمة الله عليه کا حدیث ابن عمر کو شاذ کی بنا پر باطل قرار دینا صحیح بنیاد پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض شاذ ہونے کی وجہ سے باطل قرار دینا قواعد حدیث و فقہ دونوں کے مخالف ہے، اور سندھی یا نعمانی رحمة الله عليه کا امام حاکم اور بیہقی کے کلام پر تعاقب برمحل ہے۔
ابن عون کی حدیث کے چند متابعات و شواہد
مدونة الکبری (۱/۱۶۵) پر ابن وہب اور ابن القاسم نے ان کی متابعت کی ہے اور ابن عون کی مذکورہ روایت کی تائید عبداللہ ابن عمر رضى الله عنه کے عمل سے ہوتی ہے جیساکہ مجاہد رحمة الله عليه نے ابن عمر رضى الله عنه سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عمر رضى الله عنه کے پیچھے نمازپڑھی وہ تکبیر اولیٰ کے علاوہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، ملاحظہ ہو مصنف ابن ابی شیبہ (۱/۲۱۴، رقم الحدیث ۲۴۵۲) نیز امام طحاوی اور بیہقی رحمة الله عليه نے بھی اس کی تخریج کی ہے اوراس کی سند صحیح ہے، اور عبدالعزیز ابن حکیم نے ان کی متابعت کی ہے جو کہ موطأ امام محمد کے اندر ہے، قال أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن عبدالعزیز بن حکیم بہ، اور محمد بن ابان اگرچہ ضعیف ہیں لیکن کذابین میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی احادیث کو لکھا جاتا ہے لہٰذا مجاہد رحمة الله عليه کی حدیث کو تقویت مل گئی، اور مجاہد کی امام بیہقی کے یہاں عطیہ عوفی نے بھی متابعت کی ہے جیساکہ نصب الرایہ (۱/۴۰۶) پر ہے اور عطیہ عوفی اگرچہ متکلم فیہ رجال میں سے ہیں مگر متابعت میں ان کی حدیث لکھی جاتی ہے جو کہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، اور بخاری (الادب المفرد) کے رجال میں سے ہیں، ہاں سوار ابن مصعب جو ان سے نقل کرنے والے ہیں ان کی کچھ زیادہ ہی تضعیف کی گئی ہے۔
نیز امام شافعی رحمة الله عليه نے بھی اس حدیث کو امام مالک سے لینے میں عبداللہ بن عون کی متابعت کی ہے جیساکہ عینی رحمة الله عليه کی (مبانی الاخبار) کے اندر ہے، ملاحظہ ہو (معارف السنن ۲/۴۶۸) اوراگر کسی کو شبہ ہو کہ ابن وہب اور ابن القاسم کی روایت میں صرف اتنی ہی بات پر اکتفاء ہے کہ نبی  صلى الله عليه وسلم افتتاح صلاة کے وقت رفع یدین کرتے تھے آگے نہ رفع کا ذکر ہے اور نہ ہی عدم رفع کا، تو ہم کہیں گے کہ (مدوّنہ) کے اندر ان کی روایت کو ترک رفع کی دلیل میں پیش کیاہے، اور خود حافظ ابن حجر رحمة الله عليه فتح الباری (۲/۲۷۹ باب نمبر۸۴) پر ابن عبدالبر رحمة الله عليه کا قول نقل کیا ہے کہ: (لم یر أحد عن مالک ترک الرفع فیہما الا ابن القاسم) یعنی امام مالک رحمة الله عليه سے رکوع میں جانے اور اس سے اٹھنے کے وقت عدم رفع کو صرف ابن القاسم نے روایت کیا ہے اور ص:۲۸۰ پر فرماتے ہیں: (ولم أر للمالکیة دلیلاً علی ترکہ ولا متمسکاً الا بقول ابن القاسم) پس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ (الاستذکار۱/۴۰۸) باب افتتاح الصلوٰة، کی عبارت ملاحظہ ہو جس میں افتتاح صلاة للاحرام کے بعد عدم رفع کی بھی صراحت ہے: قال مالک فیما رواہ عنہ ابن القاسم: یرفع للاحرام عند افتتاح الصلاة ولا یرفع في غیرہا، وکان مالک یری رفع الیدین في الصلاة ضعیفا وقال: ان کان ففی الاحرام .
فتح الباری میں تو صرف ابن القاسم ہی کا ذکر ہے لیکن (المدونة الکبری۱/۱۶۵) پر ابن وہب بھی ہیں۔
نیز ابن عون الخراز کی روایت کی تائید امام مالک اور جمہور مالکیہ کے اس کے مطابق عمل کرنے سے ہوتی ہے جیساکہ عنقریب آئے گا۔
جہاں تک البانی کا یہ قول ہے کہ ابن عون کی روایت کے بطلان کے لئے دیگر دلائل سے قطع نظر صرف اتنا بھی کافی ہے کہ امام مالک رحمة الله عليه اپنی کتاب (موطأ) کے اندر اس کے خلاف لفظ ذکرکیاہے، تو یہ قول انتہائی کمزور اور غیرقابل اعتبار ہے، کیونکہ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو رکوع میں جانے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع یدین والی حدیث جوکہ خود امام مالک رحمة الله عليه سے مروی ہے اور بخاری وغیرہ کے اندر موجود ہے اس کا بھی باطل ہونا لازم آئے گا، کیونکہ اسے بھی موطأ شریف کے اندر ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ اس میں تکبیر تحریمہ اور صرف رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع کو ذکر کیاہے، دیکھئے (موطأ شریف ص۲۵)
ان چاروجوہات کا ابطال جسکی وجہ سے البانی نے مذکورہ حدیث کو باطل قرار دیا ہے
پہلی وجہ: وہ حدیث کا شاذ ہونا تھا تو اس کا جواب تفصیل کے ساتھ آچکا کہ شاذ ہونا صحت حدیث کے لئے قادح نہیں ہے، اور نہ ہی اس کو حجت بنانے میں چہ جائیکہ وضع اور بطلان کا باعث بنے، اور ہم نے ابن عون کی حدیث میں جو شاذ ہونے کا گمان تھا اس کو متابعت و شواہد سے رفع کردیا ہے جوکہ ابن عون کی روایت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
دوسری وجہ: دوسری وجہ اس حدیث کو امام مالک رحمة الله عليه کا اپنی کتاب موطأ کے اندر ذکر نہ کرنا تھا، تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ بات لازم آئے کہ امام مالک رحمة الله عليه کو اس حدیث کا علم بھی نہیں تھا۔ کتنی حدیثیں ایسی ہیں جو خود امام مالک رحمة الله عليه ہی سے مروی ہیں اور کتب متداولہ میں موجود ہیں مگر موطأ شریف میں نہیں ہیں، بلکہ امام مالک رحمة الله عليه نے رکوع میں جانے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع یدین والی حدیث کو بھی موطأ میں ذکر نہیں کیاہے، حالانکہ البانی کے بقول امام مالک رحمة الله عليه کے یہاں وہ معمول بہ ہے۔
رفع یدین کے سلسلہ میں امام مالک رحمة الله عليه کے مذہب کی تحقیق
اس بات کا دعویٰ کرنا کہ امام مالک رحمة الله عليه نے زیربحث حدیث پر عمل نہیں کیا ہے تو یہ محض دعوی ہے، حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس پر عمل کیاہے اور اس کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے، چنانچہ امام سحنون نے المدونة الکبری (۱/۱۶۵) میں ذکر کیا ہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نے فرمایا کہ مجھے رفع یدین معلوم نہیں ہے، نہ ہی جھکنے کے وقت اور نہ ہی اٹھنے کے وقت سوائے تکبیر تحریمہ کے وقت کہ تھوڑا سا ہاتھ اٹھایا جائے گا، ابن القاسم رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمة الله عليه کے یہاں رفع یدین ضعیف ہے مگر تکبیر احرام میں۔
ابن عبدالبر رحمة الله عليه کی کتاب التمہید میں ہے کہ: واختلف العلماء فی رفع الیدین فی الصلاة فروی ابن القاسم وغیرہ عن مالک أنہ کان یریٰ رفع الیدین فی الصلاة ضعیفًا الا في تکبیرة الاحرام وحدہا، وتعلق بہٰذہ الروایة عن مالک أکثر المالکیین.
ترجمہ: اور نماز میں رفع یدین کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ ابن القاسم وغیرہ نے امام مالک رحمة الله عليه سے روایت کیاہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نماز میں رفع یدین کو ضعیف سمجھتے تھے مگر صرف تکبیر احرام میں،اور امام مالک رحمة الله عليه کی اس روایت پر اکثر مالکیین کا اعتماد ہے۔ ملاحظہ ہو التمہید(۹/۲۱۲)
تنبیہ: اس جگہ اس بات کی طرف اشارہ کردینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ موطأ شریف امام مالک رحمة الله عليه کا وہ مذہب نہیں ہے جس کو ان کے متبعین اختیار کرتے ہوں اور اس کی تقلید کرتے ہوں، بلکہ فتاوی اور احکام میں مالکیہ کا اعتماد اس پر ہے جس کو ابن القاسم رحمة الله عليه نے امام مالک رحمة الله عليه سے روایت کیا ہو، خواہ وہ موطأ کے موافق ہو یا نہ ہو جیساکہ حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے تعجیل المنفعة،ص:۹ پر امام حسینی پر رد کرتے ہوئے ذکر کیاہے۔
پھر امام مالک رحمة الله عليه سے عدم رفع کو نقل کرنے میں ابن عون متفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کی متابعت ابن وہب اور ابن القاسم رحمة الله عليه نے کی ہے جیساکہ گزرچکا۔
امام نووی رحمة الله عليه نے شرح مسلم کے اندر ذکر کیاہے: قال أبوحنیفة وأصحابہ وجماعةٌ من أہل الکوفة: لا یستحب الرفع في غیر تکبیرة الافتتاح، وہو أشہر الروایات عن مالک.
یعنی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور اہل کوفہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ میں رفع یدین مستحب نہیں ہے اوریہی امام مالک رحمة الله عليه سے مشہور روایت ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ مسلم شریف (۱/۱۶۸)
اور الجواہر النقی میں مع سنن بیہقی (۲/۷۶) میں امام قرطبی رحمة الله عليه کی شرح مسلم سے نقل کیاگیا ہے کہ ترک رفع امام مالک رحمة الله عليه کا مشہور مذہب ہے، قواعد ابن رشد میں بھی اسی کو امام مالک رحمة الله عليه کا مذہب قرار دیا ہے۔
ابن رشد مالکی رحمة الله عليه اپنی کتاب بدایة المجتہد (۱/۱۹۳) میں ذکر کرتے ہیں: فمِنْہُم مَن اقتصر بہ علٰی الاحرام فقط، ترجیحاً لحدیث عبد اللّٰہ بن مسعود وحدیث البراءُ بن عازب، وہو مذہب مالک رحمة الله عليه لِموافقة العمل بہ.
یعنی ائمہ میں سے بعض وہ حضرات ہیں جو عبداللہ ابن مسعود اور براء بن عازب رضى الله عنه کی حدیث کو ترجیح دیتے ہوئے صرف تکبیر احرام میں رفع کے قائل ہیں، اور یہی امام مالک رحمة الله عليه کا مذہب ہے اس پر عمل کے موافقت کی بنا پر۔
ان نقول معتبرہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام مالک رحمة الله عليه کا مذہب افتتاح نماز کے علاوہ میں عدم رفع ہی کا تھا، نیز ترمذی شریف کے نسخے مختلف ہیں چنانچہ ہندیہ (۱/۳۵) اور مجموعہ شروح اربعہ ترمذی (۱/۷۹) اور معارف السنن وغیرہ جو ہمارے پاس متداول ہیں اس میں قائلین رفع میں امام مالک رحمة الله عليه کا ذکر نہیں ہے، صرف بیروت کے جدید نسخہ میں بین المعکوفین (مالک رحمة الله عليه) امام مالک رحمة الله عليه کا نام ہے جو کہ کثیرنسخوں کے مقابلہ میں معتبر نہیں ہے۔
تیسری وجہ: وہ یہ تھی کہ ابن عمر رضى الله عنه رفع پر محافظت کرتے تھے اوراس سے یہ مراد لیاگیا تھا کہ ترک رفع ان سے ثابت نہیں ہے، پس ماقبل میں ہم نے مجاہد اور عبدالعزیز ابن حکیم کی روایت سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ابن عمر رضى الله عنه افتتاح صلاة کے علاوہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
رہی البانی کی یہ بات کہ اگر وہ حدیث ابن عمر رضى الله عنه سے ثابت ہوتی تو وہ رفع یدین نہ کرتے، پس یہ تو سرے سے مردود ہے، کیونکہ وہ کبھی رفع کرتے تھے اورکبھی رفع کو چھوڑ دیتے تھے بیان جواز اور نبی  صلى الله عليه وسلم سے دونوں کے ثابت ہونے کی وجہ سے۔
اور ابن عمر رضى الله عنه کے علاوہ بہت سارے صحابہ کرام رضى الله عنه سے مسنداً ترک رفع ثابت ہے جیسے ابن مسعود، براء بن عازب، ابوہریرة اور ابن عباس رضى الله عنه وغیرہم اور صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسی پر عمل رہا ہے۔
رفع یدین کے سلسلہ میں ابن عمر رضى الله عنه کی حدیث کے الفاظ سات طرح کے وارد ہوئے ہیں
(۱) جس میں صرف شروع میں رفع کا ذکر ہے، المدونة الکبریٰ(۱/۱۶۵)
عن ابن وہب وابن القاسم عن مالک عن ابن شہاب عن سالم عن ابن عمر رضى الله عنه عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم .
نیز عبداللہ بن عون الخراز نے بھی امام مالک سے روایت کیا ہے (الخلافیات) للبیہقی۔
(۲) جس میں افتتاح صلاة اور رکوع کے بعد رفع کا ذکر ہے، معارف السنن(۲/۴۷۳ٌ
(۳) جس میں رکوع اور سجدہ میں جاتے وقت رفع کا ذکر ہے، مجمع الزوائد(۲/۱۰۲)
(۴) جس میں افتتاح صلاة وانحطاط الی الرکوع اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع کا تذکرہ ہے جس کو امام محمد نے اپنی موطأ کے اندر،اور بخاری، نسائی، ابوعوانہ، دارمی، طحاوی وغیرہم نے ذکر کیاہے۔
(۵) جس میں ان مذکورہ تین جگہوں کے علاوہ دو رکعت کے بعد بھی رفع کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو بخاری شریف، باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین.
(۶) جس میں مذکورہ چار جگہوں کے علاوہ سجدہ کے وقت بھی رفع کا ذکر ہے۔ (بخاری: جزء رفع الیدین)
(۷) جس میں ہر خفض ورفع، رکوع وسجود، قیام وقعود کے وقت نیز دو سجدوں کے درمیان بھی رفع کا ذکر ہے۔ (فتح الباری:۲/۲۸۴)
یہ سات طرح کے الفاظ ہیں سب کے سب ابن عمر رضى الله عنه سے صحیح طور پر ثابت ہیں، پس ان میں سے کسی بھی صورت کاانکار محض اس وجہ سے کہ ابن عمر رضى الله عنه کا عمل ویسا نہیں رہا ہے ممکن نہیں ہے، لہٰذا ابن عمر رضى الله عنه کی حدیث میں سیاق کا تنوع عہد رسالت میں رفع اور عدم رفع دونوں کے اوپر عمل کی دلیل ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو معارف السنن (۲/۴۷۳)
ابن عمر رضى الله عنه کے عمل کی توجیہ: جہاں تک ابن عمر رضى الله عنه کا رفع یدین نہ کرنے والے کو کنکریوں سے مارنے کا تعلق ہے تو علامہ بنوری نے معارف السنن (۲/۴۶۶) میں یہ بیان کیاہے کہ ابن عمر رضى الله عنه کے اثر میں اِس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ رکوع کے وقت ہی رفع یدین نہ کرنے پر کنکریوں سے مارتے تھے، لہٰذا اس اثر کو اس رفع خلافی کا عنوان نہیں بنایا جاسکتا، پس اس سے استدلال بھی صحیح نہ ہوگا۔ اس اثر کے الفاظ اس طرح ہیں: أنّہ اذا رأی مُصلیًا لا یَرفع حَصَبَہ. یعنی جب وہ کسی نمازی کو دیکھتے کہ وہ رفع یدین نہیں کررہا ہے تواسے کنکریوں سے مارتے، تو ممکن ہے کہ ابن عمر رضى الله عنه کی نکیر تحریمہ کے وقت رفع یدین نہ کرنے پر ہو، نہ کہ مطلق ترک رفع یدین پر،اور تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کی تاکید ظاہر ہے۔
چوتھی وجہ: چوتھی وجہ یہ تھی کہ ابن عمر رضى الله عنه سے نقل کرنے والے ان کے صاحبزادے حضرت سالم ہیں اور وہ بھی رفع کے قائل ہیں۔
ہم کہتے ہیں اس سے بھی استدلال درست نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت سالم کے یہاں رفع یدین اولیٰ ہو، پس اس سے ترک رفع کا ناجائز ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ بہت سے ائمہ ہیں جن کی مرویات کے مطابق ان کا عمل نہیں ہے اسی بات کو امام رامہرمزی نے اپنی کتاب (المحدث الفاصل بین الراوی والواعی ص۳۲۳ و۳۲۴) پر فرمایا ہے: (ولَیْسَ یلزَم المفْتَی أنْ یُفتِیَ بجمیعِ مَا رَویٰ ولا یلزمہ أیضاً أن یَتْرک روایةَ ما لا یُفْتٰی بہ) کہ مفتی کو لازم نہیں ہے کہ اپنی تمام مرویات کے مطابق فتوی دے، اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ جس پر فتوی نہ دیا جائے اس کو ترک ہی کردے، اس کے بعد چند مثالیں بھی پیش کی ہے،اور فرمایا ہے کہ یہی امام مالک رحمة الله عليه اپنی مرویات میں سے بہت سی روایات کے خلاف عمل کرتے ہیں۔
دعوی بلادلیل: سلسلة الاحادیث الضعیفة میں شیخ ناصرالدین البانی نے یہ بھی وہم دلایا ہے کہ زیربحث حدیث میں غلطی محمد بن غالب تَمْتَام سے ہوئی ہے جو کہ احمد بن محمد البرتی سے روایت کرنے والے ہیں، پس جاننا چاہئے کہ امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۳/۱۴۴ تا ۱۴۵) پر ان کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: (کان کثیرَ الحدیث صدوقًا حافظاً) یعنی وہ سچے اور حافظ تھے،اور امام دارقطنی نے کہا ہے: (وأما لزوم تمتام کتابَہ وتَثَبُّتُہ. فلا یُنکَر ولا یُنکَر طلبُہ وحرصُہ علی الکتابة) اور تمتام کا اپنی کتاب کو پختگی سے محفوظ رکھنا اور کتاب سے چمٹے رہنا ایسا ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں ہے اور ان کا طلب کرنا اور لکھنے پر حریص ہونا بھی قابل انکار نہیں ہے، نیز دارقطنی نے ان کو ثقہ قرار دیاہے، حمزہ بن یوسف السّہمی کا کہنا ہے کہ امام دارقطنی سے تمتام کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: (ثقة مأمون، الا أنہ کان یخطیٴ، وکان وہم فی أحادیث) کہ وہ ثقہ ہیں مامون ہیں، مگر یہ ہے کہ غلطی ہوجاتی تھی اور بہت سی احادیث میں ان سے وہم ہوا ہے۔
اور حسن بن ابوطالب نے امام دارقطنی کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے تمتام کو ثقہ بتلایا ہے۔ تاریخ بغداد(۳/۱۴۴-۱۴۵) ملاحظہ ہو۔
امام ذہبی رحمة الله عليه نے ان کے بارے میں: حافظٌ مُکْثِرٌ کالفظ استعمال کیا ہے، اور ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات کے اندر ذکر کیاہے۔
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو میزان الاعتدال (۳/۶۸۱) اور لسان المیزان(۵/۳۳۷) تاریخ بغداد مذکورہ صفحہ۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ زیر بحث حدیث شیخ ناصرالدین البانی کے مذہب کے خلاف ہے پس انھوں نے کھینچ تان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ موضوع اور باطل تک کہہ دیا اور غیرمعتبر وجوہات سے (سلسلة الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ) کے تین چار صفحوں کو کالا کررکھا ہے، جبکہ انصاف کے ساتھ جائزہ لینے سے اس شعر کے مصداق ہیں:
فدَعْ عنک الکتابةَ لَسْتَ مِنْہا
وَانْ سَوَّدتَ وَجہک بالمداد
کہ لکھنا چھوڑو تم اس کے اہل نہیں ہو، کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم روشنائی سے اپنا منھ کالا کرتے۔
انصاف تو یہ تھا کہ خاموشی اختیار کرتے جیساکہ ائمہ متقدمین کا عمل رہا ہے، کہ احمد بن سعید نے احمد بن خالد سے نقل کیاہے کہ ہمارے یہاں علماء کی ایک جماعت ابن عمر رضى الله عنه کی حدیث کے پیش نظر نماز میں رفع یدین کرتی تھی اور ایک جماعت ابن القاسم کی روایت کے پیش نظر صرف احرام میں رفع یدین کرتی تھی، اور ان دونوں جماعتوں میں سے کوئی کسی پر عیب نہیں لگاتا۔ ملاحظہ ہو الاستذکار(۱/۴۰۹) اور التمہید(۹/۲۲۳)
نیز ابن حزم رحمة الله عليه نے اپنی کتاب (المحلّٰی۳/۲۳۵) کے اندر ذکر کیاہے کہ جب نبی  صلى الله عليه وسلم سے دونوں طرح کا عمل صحیح طورپر ثابت ہے تو دونوں طرح عمل کرنا مباح ہوا نہ کہ فرض، لہٰذا ہم دونوں طرح عمل کرسکتے ہیں۔
پس اگر ہم نے رفع یدین کیا تب بھی ہم نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح نبی  صلى الله عليه وسلم نے پڑھی اور اگر رفع یدین نہیں کیا تب بھی اسی طرح پڑھا جس طرح نبی  صلى الله عليه وسلم پڑھتے تھے۔
لہٰذا کسی کو حق نہیں بنتا کہ ذخیرئہ احادیث پر ہاتھ لگائے اور غیرمعتبر دلائل سے انہیں باطل اور موضوع قرار دے۔ واللّٰہ ولی التوفیق.
___________________________
ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء

No comments:

Post a Comment