’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ
اَبُوْبَکْر عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِالْحُمَیْدِیُّ ثَنَا الزُّھْرِیُّ قَالَ اَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ اَبِیْہِ رضی اللہ عنہما قَالَ
(رضی اللہ عنہما) رَائیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ
و سلم اذَا
افْتَتَحَ
الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا اَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَ مَا یَرْفَعُ
رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فَلَا یَرْفَعُ وَلَا بین السَّجْدَتَین ۔‘‘(مسندحمیدی ج۲ص۲۷۷، مسند ابی
عوانہ ، ج۱ص۳۳۴)
ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتےہیں ’’میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کودیکھاجب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے۔ رکوع کی طرف جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘
اعتراض1: ”جس نسخے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی کا شائع کردہ نسخہ ہے،جبکہ ملک شام سے مسند حمیدی کا جو نسخہ شائع کیا گیا ہے اس میں یہ عبارت نہیں، بلکہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا اثبات ہے۔“
جواب: دارالعلوم دیوبند اور خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی کے قلمی نسخوں میں یہ حدیث ترک رفع یدین میں”فلایرفع“کے ساتھ مروی ہے۔دونوں مخطوطوں کے فوٹواسٹیٹ ملاحظہ فرمائیں نورالصباح ج2ص203،204میں ۔نیز موسی زئی کے قلمی نسخہ میں بھی یہ روایت”فلایرفع“کے ساتھ مروی ہے۔ (تجلیات صفدر: ج2، ص309)
یہ بھی یاد رہے کہ مسند حمیدی صرف ہندوستان سے شائع شدہ نہیں بلکہ دارالکتب علمیہ (بیروت)، دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع(بیروت) اور مدینہ منورہ سے بھی شائع ہے۔ان تمام مطبوعات میں ”فلایرفع“کے الفاظ موجود ہیں۔دارالکتب العلمیہ(بیروت) کا نسخہ حسین سلیم اسد کی طبع کے ساتھ بھی مربوط ہے۔
ان تمام مخطوط ومطبوع نسخوں کے مقابلے میں غیر مقلدین غیرمقلد شام کے نسخے کا تذکرہ کرتے ہیں۔(نورالعینین للعلیزئی میں بھی نسخہ ظاہریہ شام کا ذکر کیا ہے) تو عرض ہے کہ نسخہ ظاہریہ غیرمقلدین کا ہے(نورالصباح ج2ص305)اور غیرمقلدین کی تحریف مشہور ہے۔مثلاً
1:غنیۃ الطالبین کے اصل نسخہ میں تراویح بیس رکعت کا ذکر ہے ،لیکن مکتبہ سعودیہ حدیث منزل کراچی کی مطبوعہغنیۃ الطالبین میں تحریف کرکے گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ)بنادی گئی۔(اصل نسخہ اورغیرمقلدین کے محرف نسخہ کا عکس دیکھیے حدیث اور اہل حدیث ص667، 668میں) 2: غیر مقلدین کے”شیخ الاسلام“مولوی ثناء اللہ امر تسری نے سینہ پرہاتھ باندھنے کی روایت ابن خزیمہ سے نقل کی، چونکہ اس کی سند میں ایک راوی مؤمل بن اسماعیل تھا جو منکر الحدیث اورکثیر الخطاء تھا۔ اس لیے موصوف نے کمال یہ کیاکہ حدیث کی سندبدل کراس پر صحیح مسلم کی سند لگادی۔ (تفصیل دیکھیے تجلیات صفدر: ج2، ص234)
نیزدیگر کتب (مثلاً کامل ابن عدی،طبرانی کبیر اور کتاب الضعفاء للدارقطنی )کے نسخہ ظاہریہ میں بھی زبر دست تحریف ہوگئی ہے(تفصیل کے لیے دیکھئے نورالصباح ج2ص305)
اگر مسند حمیدی کے نسخہ ظاہریہ میں بھی تحریف کی گئی/ ہو گئی ہو تو کون سی بڑی بات ہے؟!پس اعتراض باطل ہے۔
اعتراض2: ”مسند حمیدی کے قدیم قلمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں“
جواب: نسخہ دارالعلوم دیوبند، خانقاہ سراجیہ کندیاں اور موسی زئی کے قلمی نسخوں میں یہ حدیث اسی عبارت ”فلایرفع“کے ساتھ موجود ہے۔ پہلے دو نسخوں کی نقل ملاحظہ ہو (نورالصباح ج2ص303،304)، اورنسخہ موسی زئی کی عبارت ملاحظہ ہو (تجلیات صفدر: ج2، ص309)
اعتراض3: ”امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی یہی روایت صحیح مسلم میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات سے موجود ہے۔“
جواب: ہماری یہ روایت حمیدی عن سفیان کے طریق سے ہے اور مسند ابی عوانہ (جس کا پوسٹر میں حوالہ دیاگیا ہے)میں عبداللہ بن ایوب المخرمی و سعدان بن نصرو شعیب بن عمرو عن سفیان کے طریق سے مروی ہے جب کہ مسلم میں یہ طریق نہیں بلکہ یحییٰ بن یحییٰ تمیمی عن سفیان کے طریق سے مروی ہے۔
اعتراض4: ”اس حدیث کے مرکزی روای سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے رفع یدین ثابت ہے۔“
جواب: اسی مرکزی راوی سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے ترک رفع یدین بھی ثابت ہے۔(التمہید لابن عبدالبر ج9ص226)۔
اور یہ عمل آپ رحمہ اللہ نے اسی ترک رفع یدین والی روایت کی بناء پر کیا ہے۔
اعتراض5: ”المستخرج لابی نعیم الاصبہانی میں یہی حدیث امام حمیدی کی سند سے رفع یدین کے اثبات کے ساتھ مقید ہے۔“
جواب: :امام حمیدی کی سند سے یہی حدیث ان مطبوع /مخطوط کتب میں رفع یدین کے ترک کے ساتھ موجود ہے۔
1: مسند حمیدی مخطوطہ (نسخہ دارالعلوم دیوبند)
2:مسندحمیدی مخطوطہ (نسخہ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف)
3:مسندحمیدی مخطوطہ(نسخہ موسی زئی شریف)
4:مسند حمیدی مطبوع (دارالکتب علمیہ، بیروت)
5:مسند حمیدی مطبوع (دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت)
6:مسند ابی عوانہ ج1ص432(بتحقیق ایمن بن عارف الدمشقی)
7:مسند ابی عوانہ ج1ص334(بتحقیق ابوعلی النظیف)
8: مسند ابی عوانہ قلمی نسخہ پیر جھنڈا (عکس ملاحظہ کریں نورالصباح ج2ص314)
لہذا ان آٹھ کے مقابلے میں ایک نسخہ کا حوالہ مرجوح ہے۔و الحمدللہ
اعتراض6: ”مسند ابی عوانہ والے مطبوعہ نسخے میں واو رہ گئی ہے اور صحیح مسلم میں واو موجود ہے۔“
جواب: اگر محدث ابوعوانہ رحمہ اللہ صحیح مسلم والا طریق (یحییٰ وغیرہ عن سفیان) ذکر کرتے تب تو علیزئی کا”واو“ رہ جانے والا اعتراض درست تھا، حالانکہ انہوں نے اپنی مسند میں صحیح مسلم والا طریق ذکر نہیں کیا جس میں واو ہے بلکہ حمیدی وعبداللہ بن ایوب المخرمی وسعدان بن نصر وشعیب بن عمرو عن سفیان والے طرق ذکر کیے ہیں جن میں واو موجود نہیں ہے۔(دیکھئے مسند ابی عوانہ ج1ص432بتحقیق ایمن بن عارف الدمشقی ، و فی نسخۃ ج1ص334بتحقیق ابوعلی النظیف)
پس اعتراض باطل ہے۔
فائدہ: مسندحمیدی میں جزاء”فلایرفع“ہے اور مسند ابی عوانہ مطبوع/مخطوطہ میں ”لایرفع/فلایرفع“قواعد عربیہ کی روسےدونوں درست ہیں۔والحمد للہ
اعتراض7: ”مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخہ میں واو موجود ہے۔
جواب: علی زئی صاحب نے نورالعینین ص79پر مسندابی عوانہ سندھی مخطوطے کا عکس پیش کیا ہے۔اس مخطوطے میں ”ف“ (جسے موصوف واو سمجھ بیٹھے )کا لڑ”لا“کے ساتھ ملا ہوا ہے۔عبارت یوں ہے:واذا اراد ان یرکع وبعد مایرفع راسہ من الرکوع فلایرفعھما،اور الاعتصام ہفت روزہ 2محرم الحرام 1403ھ،3جولائی 1992ص21میں محمد ایوب اثری(حیدرآباد، سندھ)نے مسند ابی عوانہ قلمی پیر جھنڈا کا نسخہ پیش کیا ہے،اس میں فلایرفعھما صراحۃ نظر آرہاہے۔اس کاعکس ملاحظہ کریں نورالصباح ج2ص314۔
اعتراض3: ”امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی یہی روایت صحیح مسلم میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات سے موجود ہے۔“
جواب: ہماری یہ روایت حمیدی عن سفیان کے طریق سے ہے اور مسند ابی عوانہ (جس کا پوسٹر میں حوالہ دیاگیا ہے)میں عبداللہ بن ایوب المخرمی و سعدان بن نصرو شعیب بن عمرو عن سفیان کے طریق سے مروی ہے جب کہ مسلم میں یہ طریق نہیں بلکہ یحییٰ بن یحییٰ تمیمی عن سفیان کے طریق سے مروی ہے۔
اعتراض4: ”اس حدیث کے مرکزی روای سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے رفع یدین ثابت ہے۔“
جواب: اسی مرکزی راوی سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے ترک رفع یدین بھی ثابت ہے۔(التمہید لابن عبدالبر ج9ص226)۔
اور یہ عمل آپ رحمہ اللہ نے اسی ترک رفع یدین والی روایت کی بناء پر کیا ہے۔
اعتراض5: ”المستخرج لابی نعیم الاصبہانی میں یہی حدیث امام حمیدی کی سند سے رفع یدین کے اثبات کے ساتھ مقید ہے۔“
جواب: :امام حمیدی کی سند سے یہی حدیث ان مطبوع /مخطوط کتب میں رفع یدین کے ترک کے ساتھ موجود ہے۔
1: مسند حمیدی مخطوطہ (نسخہ دارالعلوم دیوبند)
2:مسندحمیدی مخطوطہ (نسخہ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف)
3:مسندحمیدی مخطوطہ(نسخہ موسی زئی شریف)
4:مسند حمیدی مطبوع (دارالکتب علمیہ، بیروت)
5:مسند حمیدی مطبوع (دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت)
6:مسند ابی عوانہ ج1ص432(بتحقیق ایمن بن عارف الدمشقی)
7:مسند ابی عوانہ ج1ص334(بتحقیق ابوعلی النظیف)
8: مسند ابی عوانہ قلمی نسخہ پیر جھنڈا (عکس ملاحظہ کریں نورالصباح ج2ص314)
لہذا ان آٹھ کے مقابلے میں ایک نسخہ کا حوالہ مرجوح ہے۔و الحمدللہ
اعتراض6: ”مسند ابی عوانہ والے مطبوعہ نسخے میں واو رہ گئی ہے اور صحیح مسلم میں واو موجود ہے۔“
جواب: اگر محدث ابوعوانہ رحمہ اللہ صحیح مسلم والا طریق (یحییٰ وغیرہ عن سفیان) ذکر کرتے تب تو علیزئی کا”واو“ رہ جانے والا اعتراض درست تھا، حالانکہ انہوں نے اپنی مسند میں صحیح مسلم والا طریق ذکر نہیں کیا جس میں واو ہے بلکہ حمیدی وعبداللہ بن ایوب المخرمی وسعدان بن نصر وشعیب بن عمرو عن سفیان والے طرق ذکر کیے ہیں جن میں واو موجود نہیں ہے۔(دیکھئے مسند ابی عوانہ ج1ص432بتحقیق ایمن بن عارف الدمشقی ، و فی نسخۃ ج1ص334بتحقیق ابوعلی النظیف)
پس اعتراض باطل ہے۔
فائدہ: مسندحمیدی میں جزاء”فلایرفع“ہے اور مسند ابی عوانہ مطبوع/مخطوطہ میں ”لایرفع/فلایرفع“قواعد عربیہ کی روسےدونوں درست ہیں۔والحمد للہ
اعتراض7: ”مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخہ میں واو موجود ہے۔
جواب: علی زئی صاحب نے نورالعینین ص79پر مسندابی عوانہ سندھی مخطوطے کا عکس پیش کیا ہے۔اس مخطوطے میں ”ف“ (جسے موصوف واو سمجھ بیٹھے )کا لڑ”لا“کے ساتھ ملا ہوا ہے۔عبارت یوں ہے:واذا اراد ان یرکع وبعد مایرفع راسہ من الرکوع فلایرفعھما،اور الاعتصام ہفت روزہ 2محرم الحرام 1403ھ،3جولائی 1992ص21میں محمد ایوب اثری(حیدرآباد، سندھ)نے مسند ابی عوانہ قلمی پیر جھنڈا کا نسخہ پیش کیا ہے،اس میں فلایرفعھما صراحۃ نظر آرہاہے۔اس کاعکس ملاحظہ کریں نورالصباح ج2ص314۔
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteانہی باتوں کا جواب جب دے دیا گیا ہے تو خوامخواہ آپ کو یہ لنک دوبارہ یہاں پوسٹ کرنے اور پحر وہی بات دہرانے کی زحمت آخر کیونکر اٹھانا پڑی۔ فیا للعجب
Deleteالسلام علیکم
ReplyDeleteبھائی جان، اسکا کیا ثبوت ہے کہ نُسخہ دیوبند، نُسخہ موسیٰ زئی اور دیگر نسخے جنکا آپنے ذکر کیا وہ اصل قلمی نسخے ہیں اور نُسخہ ظاہری سے زیادہ قدیم ہیں؟
جزاک اللہ خیرا
اس سوال پر میرا بھی ایک سوال بنتا ہے اور انہی الفاظ میں بنتا ہے کہ " اسکا کیا ثبوت ہے کہ نُسخہ ظاہریہ اصل قلمی نسخہ ہے اور دیگر نُسخوں سے زیادہ قدیم ہے؟
Delete